دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم نے کیا دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کا استقبال۔

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 9. 10. 2020

Komentáře • 12

  • @arifqasmi4117
    @arifqasmi4117 Před 3 lety +4

    اللہ پاک
    دار العلوم کی ندوۃ العلماء اور جملہ حضرات علماء عظام کو خوب خوب سلامت رکھے اور قبول فرمائے آمین ثم آمین

  • @spiritualknowledge5023

    Nafs purification by ziker qalb Allah hu Allah hu ka waried recite inside the heart this act creat Noor that help for purification of nafs and qalb ❤️

  • @ShoaibKhan-io8ou
    @ShoaibKhan-io8ou Před rokem

    Allah ese muhabbat zadeed ulama mi paida farmaye

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    رمضان خیر و برکت کا مہینہ
    اللہ جل شانہ کی اپنے بندوں کے لیے نعمتوں اور رحمتوں کا شمار ممکن نہیں ۔ اللہ تعالی کی ان نعمتوں میں ماہ رمضان المبارک کو ایک منفرد مقام و حیثیت حاصل ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا انتظار رہتا تھا اور اور آپ (ص) اس کا بضد ذوق و شوق استقبال فرمایا کرتے تھے ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تو اللہ تعالی سے دعا فرماتے
    " اے اللہ ہمارے رجب و شعبان کو ہمارے لیے مبارک کر اور رمضان تک ہمیں پہنچا دے ۔ جب ماہ شعبان کی ابتدا ہوتی تو آپ (ص) کثرت سے روزے رکھنا شروع کردیتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
    " حضور پاک رمضان المبارک کے علاوہ تمام مہینوں سے زیادہ روزے صرف شعبان میں رکھتے تھے بلکہ کبھی تو پورا ماہ روزوں میں گزارتے تھے " ۔
    در اصل روزہ میں جسمانی اور مادی کثافتوں سے دور رہنے اور روحانی لطافتوں کے حاصل کرنے کا خاص موقع ملتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
    " تمہارے پاس رمضان کا مبارک مہینہ آیا ہے جس کے روزے تمہارے اوپر فرض کیے گئے ۔ اس میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں
    نیز سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں " ۔
    جیساکہ مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوتا ہے
    کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کا کا اشتیاق اور اس کی رحمتوں اور حرکتوں کا سال بھر انتظار رہا کرتا تھا ۔ کیوں نہ رہے رمضان المبارک کا مہینہ تاریخ اسلام اور دین اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
    نزول قرآن کا مہینہ
    اسی ماہ میں قرآن مجید کی ابتدائی پانچ آیتین نازل کی گئیں اور وحی الہی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اس ماہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں معتکف تھے کہ جبرئیل علیہ السلام غار حرا میں تشریف لاتے ہین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی ابتدائی پانچ آیتین نازل کی جاتی ہیں :
    إقرأ باسم ربك الذي خلق o خلق الإنسان من علق o إقرأ وربك الأكرم الذى علم بالقلم o علم الإنسان ما لم يعلم o
    : پڑ ھیے( اے نبی ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔ پیدا کیا انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے ۔ پڑھیں اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا
    انسان کو وہ علم سکھایا جس کو وہ نہ جانتا تھا ۔
    یہاں سے پوری عالم انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کا دروازہ کھل گیا ۔ ارشاد خداوندی ہے :
    " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ۔ لہذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔۔۔۔"
    ( البقرة : ١٨٥ )
    الله تبارك وتعالى كا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم اور آپ اس سال ، اس مبارک مہینے میں بقید حیات ہیں اور اس مہینے کے فیوض و برکات سے مالا مال ہورہے ہیں ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ :
    " تمہارے اوپر ایک مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے ، بہت مبارک مہینہ ہے ،
    اس میں ایک رات ( شب قدر ) ہے جو ہزار راتوں سے بڑھ کر ہے ۔ یہ ایک ایسا نہیں ہے جس کا پہلا حصہ اللہ تعالی کی رحمت ہے اور درمیانہ حصہ مغفرت اور آخری حصہ آگ ( جہنم ) سے آزادی ہے " ۔ ( حدیث )
    سبحان اللہ کتنی ساری نعمتوں ہیں ۔ اللہ تعالی کی ہمارے اوپر بے شمار نعمتین ہیں ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
    " تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے "
    ( سورہ ١٤ آيه ٣٣ )
    اتنے انعامات پر معاملہ ختم نہیں ہوجاتا ، پھر ایک ایسی رات عنایت فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ سبحان اللہ ، سبحان اللہ اس سے مراد جلیلہ القدیر میں اللہ تعالی نے قرآن مجید نازل فرمایا ۔ ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کبھی ہزار مہینوں میں نوع انسانی کے کی فلاح وہ کام نہ ہوا ہوگا جتنا اس ایک رات میں ہوگا ۔
    اللہ تبارک و تعالی ماہ رمضان المبارک میں ایسے مواقع فرمادیتا ہے جن کی بدولت ہم بے حد و حساب نعمتیں ، مغفرت ، رحمت ، جہنم سے آزادی وغیرہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ اس مہینے میں ایک مومن اللہ تعالی کی جتنی عبادت کرے گا اور نیکیوں کے جتنے زیادہ کام کرے گا وہ سب اس کے لیے زیادہ سے زیادہ روحانی ترقی کا وسیلہ بنیں گے ۔
    رمضان المبارک کے روز وں کو آداب کی پابندی سے رکھیں تاکہ کل جب آپ اللہ رب الوقت کے حضور حاضر ہوں تو روزہ آپ کی سفارش کرسکے اور آپ جنت کے مستحق قرار پاسکیں
    حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " قیامت کے دن روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا کہ اے پروردگار ! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوںسے روکے رکھا ۔ اے رب الوقت تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور اللہ جل شانہ اس کی سفارش قبول فرما لے گا ۔
    جاری
    رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمت و بخشش اور مغفرت کا نہیں ہے ۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے اس مبارک و مقدس مہینے میں روزہ ، تراویح ، تلاوت قرآن اور دیگر عبادات کے ذریعہ اللہ تعالی کو راضی کیا ۔

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    مادى دنیا اور عقل انسانی سے ماوراء
    عظیم الشان واقعہ معراج
    ساتون آسمان اور سدرة المنتہی کی سیر
    اور مشاہدات
    سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الذى باركنا حوله لنريه من آياتنا إنه هو السميع البصير o
    پاک ہے ( وہ ذات ) جو ایک رات اپنے بندے مسجد حرام ( خانہ کعبہ) سے مسجد اقصی ( بہت المقدس) لے گئی ، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ اسے اپنی نشانیاں دکھائے ، بیش وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔
    اس آئی کریمہ میں اللہ جل شانہ نے " أسرى بعبده فرمايا ہے اس لیے یہ واقعہ إسراء كہلاتا ہے ۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے ۔ حدیث میں اس واقعہ کے لیے " عرج بی " آیا ہے یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا اس لیے یہ واقعہ کہلایا ۔
    احادیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد نے بیان کیا ہے ۔ علامہ زرقاوی نے ٤٥ صحابہ کا نام بنام ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث معراج کو روایت کیا ہے ۔
    یہ واقعہ تین مراحل پر مشتمل ہے :
    ١ -- پہلا مرحلہ مسجد حرام سے لے کر مسجد الأقصى تک
    دوسرا مرحلہ مسجد الاقصی سے لے کر ساتوں آسمان اور سدرة المنتہی تک
    تیسرا مرحلہ سدرة المنتہی سے آگے تک عالم تجرید ۔ اس سے آگے قاب قوسین او ادناہ تک
    گوشہ حقیقت وہ عالم ہے جو لامکان ہے ۔ اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس کی قائل ہے کہ سفر معراج سدرة المنتہی تک وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپس ہوگئے ۔ اس کے برخلاف علماء کی دوسری جماعت آگے کے سفر کی قائل ہے ۔
    سدرہ المنتہی میں عالم مکان ختم ہوگیا ۔ وہان آپ (ص) کے لیے سبز رنگ کا نور کا تخت آگیا اس کا نام رفرف تھا ۔ آپ اس پر سوار ہوکر لامکان کی طرف چلے ۔ یہاں کے احوال و کیفیات ہر شئ سے ماوراء ہے ۔ صوفیاء رحمہم اللہ عجب عجب احوال ، مشاہدات اور کیفیات بیان کرتے ہیں جن کا بیان کرنا یہاں ضروری نہیں ۔
    اسراء اور معراج کا واقعہ کب پیش آیا :
    معراج کی تاریخ ، دن اور مہینہ میں بہت اختلافات ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے ایک سال یا ذیڑہ سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیش آیا ۔
    ابن قتیبہ دینوری( متوفی ٢٦٧ هج) ابن البر ( متو فی ٤٦٣ هج) اور امام مووی نے تحریر کیا ہے کہ واقعہ معراج رجب المرجب کے مہینہ میں ہوا ۔ محدث عبد الغنی مقدسی نے رجب کی ستائیسویں تاریخ بھی تحریر کیا ہے ۔ علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے اور بعض مؤرخین کی رائے کہ یہی سب سے زیادہ قوی روایت ہے ۔
    ( زرقانی ص ٣٥٨)
    مختصر حالات معراج :
    معراج کی رات حضرت جرنیل علیہ السلام چند فرشتوں کے ساتھ تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم کے پاس لے گئے ، سینہ مبارک کو چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو نکال کر اسے آب زمزم سے دھویا پھر ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے ایک طشت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں انڈیل کر چاک کو برابر کردیا ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براق پر سوار کرکے بیت المقدس لے گئے ۔
    براق انوار کی سواری پرصفر وقت میں
    محیر العقول سفر
    اس سواری کی برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی تھی ۔ یہ سفر جبرئیل علیہ السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں ہوا ۔بیت المقدس پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء علیپم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے پھر آپ(ص) نے تمام انبیاء اور رسالوں کو جو وہاں حاضر تھے ، دو رکعت نماز پڑھائی ۔
    ( تفسیر روح المعانی ج ٥ ص ١١٢)
    یہ امامت انبیاء کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا ۔ سفر معراج سے واپسی پر جب اصل مقصد پورا ہوگیا تو تمام انبیاء علیپم السلام آپ کو رخصت کرنے کے لیے بیت المقدس تک آئے ۔ اس وقت نماز فجر کا وقت ہوگیا تھا ۔ جبرئیل امین کے اشارے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی ۔ اس سے تمام انبیاء علیپم السلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیپم السلام کے امام قرار پائے ۔
    سورہ اسراء کی اس پہلی آیہ کریمہ میں
    اللہ جل شانہ نے خود معراج مصطفی کا ذکر فرمایا ۔ اس اپنی قدرت اور تنزیہ و تقدیس کو بیان فرمایا ۔
    پاک و برتر اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے وہ ذات ۔ واقعہ معراج کا بیان کرنا ہے لیکن ابتدا اپنی تقدیس اور تنزیہ سے فرمایا ۔ اس لیے جو واقعہ اس کے بعد بیا کیا جانے والا ہے وہ بڑی اہمیت کی حامل ، محیر العقول اور عظیم الشان ہوگی اور اس کا انکار علم کی کمی اور کم فہمی پر مبنی ہوگی ۔ اس تمہیں کے بعد جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے ، وہ اگرچہ آج کے خلائی مطالعات اور تحقیقات کرنے والے سائنسدانوں کی سمجھ میں نہ آئیں تو یہ آج کی ماڈرن سائنس کا نقص ہے اور وہ اتنی ایڈوانس نہیں ہے ۔
    لیکن اللہ جل شانہ جو " بدیع السموات و الارض" ہے اور ہر نقص و کمزوری سے پاک ہے
    اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ۔ اگر اس کے لیے بھی ناممکن ہو تو پھر وہ مبدع کائنات اور ہر چیز کا خالق نہیں رہا ۔ سبحان اللہ عما یصفون ۔
    خبردار یہ دعوی مصطفی نے نہیں کیا بلکہ اللہ نے فرمایا کہ یہ دعوی میرا ہے ۔ میرے رسول نے یہ دعوی مہین کیا کہ اس نے خود ییہ سفر کیا ہے بلکہ مین اللہ رب العزت تمہیں باخبر کر رہا ہوں کہ یہ سفر معراج اپنے برگزیدہ بندہ اور رسول کو میں نے کرایا ہے ۔
    اے مشرکین مکہ اگر انکار کرنا ہے تو میری بات کا انکار کرو ۔ مجھ سے پوچھو کہ میں معراج کراسکتا ہوں یا نہیں! اس واقعی معراج کا انکار کیے جانے اور زبان اعتراضات کھل نے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع فرمادیا
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety +1

    وید کے " نراشنس " محمد رسول اللہ ( ص )
    وید میں " نراشنس " اور " کلکی اوتار " کا ذکر تفصیل سے آیا ۔ نراشنس کا معنی تعریف کیا ہوا انسان جسے عربی میں محمد کہتے ہیں ۔ اسی طرح " کلکی اوتار " کا معنی ہے نبی آخر الزمان یعنی آخری رسول صلی علیہ وسلم پر ۔ ان کا ذکر وید میں بڑی تفصیل سے آیا ہے ۔ جو علامات " نراشنس " اور " کلکی اوتار " کے وید میں بیان کیے گئے ہیں وہ صرف محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم پر پورے اترتے ہیں ۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ علامات کسی اور شخص میں نہیں پائی جاتی ہیں ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید کا یہ حصہ الہامی ہے ۔ اللہ رب العلمین نے اپنے کسی نبی کو پیغمبر آخر الزمان اور ان کی علامات کو بڑی تفصیل سے وحی کے ذریعہ بتایا ہوگا ۔
    ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے Peace TV چینل سے توحید اور ویدہ میں کلکی اوتار کے بیان کو مکمل حوالے دے کر بیان کیا ہے ۔ ہندو ان کے پروگرامس کو دلچسپی سے سنتے تھے اور ان کے پروگراموں میں برضا و رغبت ایمان بھی لاچکے ہیں ۔
    ہندو اسکالر کہتے ہیں کہ وید آسمانی کتاب ہے ۔ یہ کتاب اس کے ماننے والوں میں زبانی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کی جاتی رہی پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اسے قلمبند کیا گیا ۔ پہلی بار جب یہ ضبط تحریر میں لائی گئی ہوگی اس وقت یہ مختصر رہی ہوگی لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اس میں اضافے ، رد و بدل اور لفظی و معنوی تحریفات کی جاتی رہیں ۔ اس دھرم کے علماء نے اس کی تفسیریں بھی لکھی ہوں گی جو آج ان کی مذہبی کتابیں ہوگئیں جیسے ' بھگوت گیتا ' ۔
    اب سوال پیدا ہوتا ہے وہ نبی کون ہیں؟
    ہندو اسکالر کہتے ہیں ویدہ چار ہزار سالہ پرانی
    کٹا ب ہے ۔ بعض ہندو کہتے ہیں کہ ان کی تاریخ پانچ ہزار سالہ سب سے قدیم تاریخ ہے ۔ ان کے اس قول کے مطابق جس نبی پر یہ کتاب وحی الہی کے ذریعہ نازل کی گئی ہوگی وہ
    نوح علیہ السلام سمجھ میں آتے ہیں ۔
    وید میں " منو " کا ذکر آیا ہے اور آج کے ہندو
    " منو " سے واقف ہیں ۔ یہ منو وہی نوح ہو سکتے ہیں جن کا توراة اور قرآن میں بار بار ذکر کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ جو ایک مشہور محقق گزرے ہیں ان کی رائے یہ تھی کہ قرآن میں جس " زبر الأولين " ما ذكر كیا گیا ہے وہ یہی ویدہے ۔
    اس قدر حقیقیت کھل جانے اور تفصیلات سامنے آجانے کے بعد ہندوؤں کا پیغمبر آخر الزمان کو نہ ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
    بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جو سنسکرت زبان و ادب اور مذہبی تعلیمات کے ماہر ہیں انہوں اس موضوع پر ایک مستند کتاب لکھی تھی ۔ انہوں واضح الفاظ میں ہندوؤں کو مخاطب کرکے لکھا ہے وید کے
    " نراشنس " اور " کلکی اوتار " انسانی تاریخ میں کوئی اور نہیں بلکہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہیں ۔ اب انہیں محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم پر ایمان لاکر ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے ۔ اللہ تعالی ان کو وید کے مطابق محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    انٹارکٹیکا کی سطح کے نیچے پوشیدہ
    بحری زندگی کی " خفیہ دنیا " دریافت
    سائسندانوں نے برفانی براعظم انٹارکٹیکا کی برفانی تہ کے نیچے پوشیدہ ایک " خفیہ دنیا " تلاش کرلی ہے ۔ نیوزی لینڈ کے سائنسدانوں نے روس آئس شیلف سے چند سو کلومیٹر دور واقع برف کی تہ کے نیچے ایک دریا میں جھینگوں سے ملتے جلتے جانداروں کو دریافت کیا ہے ۔
    یہ سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے موسمیاتی تبدیلیوں سے برفانی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ جب انہوں نے ایک جگہ کھدائی کی تو وہاں دریا دریافت پوا اور اس کے اندر بھیجے گئے کیمرے پر ایمفی پوڈز نامی مچھلیوں کے گروپ نے دھاوا بول دیا ۔
    سائسندانوں کے مطابق کچھ وقت تک تو ہمیں لگا کہ کیمرے میں کوئی خرابی ہے مگر جب منظر کچھ بہتر ہوا تو ہم نے پانچ ملی میٹر حجم کی مچھلیوں کو دیکھا ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہ منظر دیکھ کر اچھل پڑے تھے
    کیوں کہ ان جانداروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں زندگی کے لیے سازگار ماحول موجود ہے ۔
    اس تیم نے کچھ عرصہ قبل روس آئس شیلف کی سیٹیلائٹ تصاویر سے برف کے نیچے چھپے دریا کے دہانے کو دریافت کیا تھا ۔ سائسندانوں نے بتایا اگرچہ ہم انٹارکٹیکا کی برفانی تہ کے نیچے چھپے دریاوں سے واقف ہوئے مگر اب تک کا ان کا براہ راست سروے نہیں کیا خسکا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ایک دریا لا مشاہدہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم پہلی بار کسی خفیہ دنیا میں داخل ہورہے ہین ۔
    انہوں نے آلات کو مشاہدے کے لیے دریا میں چھوڑدیا جبکہ لیبارٹری میں یہ جانچ پڑتال کی جائے گی کہ کیا چیز اس پانی کو منفرد بناتی ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 3 lety

    مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہری اس دار فانی سے دارالبقاء کی طرف رحلت فرماگئے ۔ بہت ہی افسوسناک خبر ہے ۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
    لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
    اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
    مولانا نذر الحفیظ ندوی دارالعلوم ندوة العلماء میں عربی زبان و ادب کے ایک ماہر استاذ تھے
    انہوں نے جامعہ ازہر سے عربی میں ایم اے کیا تھا ۔ پوری زندگی درس و تدریس میں گزارا
    اور طلباء ندوہ کے اندر عربی زبان و ادب کی مہارت پیدا کرتے رہے ۔ زہے قسمت !
    میں 1983 میں مصر سیاحت کے لیے گیا تھا
    جامعہ ازہر کی بھی زیارت کی ۔ مولانا مرحوم سے ان کی رہائش گاہ میں ملاقات ہوئی تھی ۔ ان کے ساتھ اور ہندی طلباء بھی رہتے تھے ۔ انہوں نے ایک فندق میں میری رہائش کا انتظام کردیا تھا جس کا کرایہ اس وقت تین جنیہ مصری تھا ۔ اس سے پہلے میں نے ایک فندق میں دو دن قیام کیا تھا جس کا کرایہ سات جنیہ تھا ۔
    میں ایک بار ندوہ گیا تھا تو ان سے ملنے کے لیے گیا تھا لیکن ملاقات نہیں ہوئی وہ اپنے وطن گئے ہوئے تھے ۔ ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہوا تھا ۔ اس سے پہلے ایک بار ندوہ میں ملاقات ہوئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ " قاہرہ میں اور اب ندوہ میں " ۔ مولانا نذر الحفیظ مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ کے عزیز شاگردوں میں تھے اور انہی کی توجہ سے انہیں جامعہ ازہر جانے کا موقع ملا تھا ۔
    ان کی رحلت کے بعد ناظم ندوة العلماء مولانا محمد رابع ندوی دامت برکاتہ ایک اور صدمہ سے دوچار ہوئے ۔ اللہ تعالی ان کو ہمت اور تقویت عطا فرمائے ۔
    امہ مسلمہ اس وقت پوری دنیا میں سخت دور سے گزر رہی ہے ، ہمارے اسلامی اور دینی مدارس اور نظام تعلیم و تربیت بھی کو رونا وبا کی وجہ سے دو سال سے بری طرح متاثر ہے جو بلاشبہ امہ مسلمہ کا بہت بڑا خسارہ ہے
    اللہ تعالی جلد مدارس کے تعلیم و تربیت کو اس کی صحیح اور طبعی حالت میں فرمادے
    آمین ۔
    اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنہ الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان اور خویش و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین
    محمد لئیق ندوی ، کولکتہ
    بروز جمعہ ، بوقت شب 40 ۔8

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    تفہیم کائنات
    آغاز کائنات کا مطالعہ اور تحقیق
    ہماری یہ کائنات ناقابل تصور حد تک وسیع و عریض اور حیرت انگیز ہے ۔ کائنات اور زندگی کے رازہائے سربستہ کو جاننا کوئی آسان کام نہین ہے ۔ پم نے اس لامتناہی کائنات کے ایک کونہ میں دیکھنے کے بعد یہ سمجھ لیا کہ ہم نے کائنات کے راز کو جان لیا ہے ۔ حقیقت یہ کہ ہم پورا سچ نہین جانتے ہیں ۔ سائنسداں اپنی تمام تر تحقیقات کے باوجود اس کائنات کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں ۔ یہ کائنات اپنے راز اتنی آسانی سے اجاگر نہیں کرتی ۔
    ہم پورا سچ نہین جانتے ۔ کیا ہم کائنات کے راز کو کبھی جان پائیں گے ۔ سائنس کی مدد سے ہم ان قوانین کو جاننے کی کوشش کرتے ہین جنہیں اللہ تعالی نے اس کائنات میں ودیعت کر رکھا ہے ۔
    لیکن سائنسداں کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین
    اس سلسلے میں آن کی کوششیں حیرت انگیز بھی ہیں اور قابل ستائش بھی ۔ ان سے ہماری معلومات میں اضافہ ہورہا ہے اور ہم ان کے فوائد سے مستفید ہورہے ہین ۔
    ہماری اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ سائنسداں
    سر جوڑ کر اس کو سمجھنے کی مسلسل کوششیں کررہے ہین ۔ ٢٥ دسمبر ٢٠٢١ میں ناسا
    نے ایک جدید ترین انتہائی ترقی یافتہ ٹیلسکوپ جیمس ویب JWST لانچ کیا ہے جس پر تقریبا دس ارب ڈالر صرف ہوئے ہیں ۔
    یہ اس مقصد کے لیے لانچ کیا گیا ہے کہ سائنسداں جان سکیں کہ اس کائنات کا آغاز کیسے ہوا ؟ اس کا کام کائنات مین پیدا ہونے والی سب سے پہلے ستارہ اور پہلی گلکسی ( Glaxy ) کو بنتے ہوئے دیکھنا ہے ۔ سائنسداں اس کی مدد سے یہ جان سکیں گے ۔
    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ جب تک ہم یہ نہ جان لیں کہ پہلے مائیکرو سیکنڈ مین کیا ہوا تھا تب تک کائنات کے آغاز کا معمہ حل نہین ہوگا اور Mysteries باقی رہیں گیں ۔ اگر ہم اسے اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی ۔
    جیمس ویب اسپیس ٹیلسکوپ وقت میں اتنا پیچھے دیکھے گا کہ وہ روشنی کی پہلی چمک
    اور اس جگہ کو exactly دیکھے گا جہاں پہلے ستارہ نے جنم لیا تھا ! اس کائنات کو 8۔13 ارب سال پہلے کی بالکل ابتدائی حالت میں دیکھنا بہت بڑا چیلنجنگ کام ہے ۔ بگ بینگ کے پہلے مائکرو سیکنڈ میں کائنات کو ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا تفہیم کائنات کی شاہ کلید ہے ۔ سائنسداں اس کی بالکل صحیح جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
    ڈارک میٹر سائنسدانوں کے لیے ایک راز بنا ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات کے بننے میں اس کا رول ہے ۔
    کائنات کا 95% مادہ ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی ہے ۔ ان کو سمجھنے سے سائنسداں اب تک قاصر ہیں ۔ اس نا معلوم مادہ کو اچھی طرح جانے اور سمجھے بغیر اس کائنات کے لاینحل گتھیوں کو سلجھانا ممکن نہیں ہے ۔ سائنسداں کہتے ہین کہ اسی مادہ نے ہماری موجودہ کائنات کو بنایا ہے ۔ جیمس ویب JWST ٹیلسکوپ اس بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے ۔
    ناسا کائنات کی ابتدائی انتہائی گرم گھنی حالت کو جب وہ ہائیدروجن گیس کا ایک عطیم بادل تھا کے مشاہدے اور تحقیق کے لیے یہ ٹیلسکوپ لانچ کیا ہے ۔ یہ زمین سے ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر دور Lagrange point L2 میں کام کرنے کے لیے بھیجا ( deploy )کیا گیا ہے ۔
    کائنات کو اس کی بالکل ابتدائی حالت میں ارتقا کرتے ہوئے دیکھنا اور کائنات کی آج جو شکل و صورت ہے وہ کیسے بنی ؟
    قرآن نے اس حقیقت سے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ
    آسمان پہلے دخان ( دھواں) تھا ۔
    ثم استوى إلى السماء و هى دخان فقال لها و للارض ائتيا طوعا أو كرها ، قالتا أتينا طائعين o ( حم السجدہ : ١١ )
    پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا ۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا " وجود میں آجاؤ ، خواہ تم چاہوں یا نہ چاہوں " ۔ دونوں نے کہا " ہم آگئے فرمانبرداروں کی طرح " ۔
    آخر کوسمک ڈارک ایج ( 🍖Cosmic Dark Age ) مین کونسا راز چھپا ہے جس کی وجہ سے یہ کائنات بنی ۔ اس کو جاننے کی کوشش کرنا ۔ یہ چند اہم بنیادی باتیں ہیں جن کو جانے بغیر کائنات کے آغاز کو نہیں سمجھاجاسکتا ہے ۔
    ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان اہم باتوں کو اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو کائنات کے بارے میں ہماری سوچ بالکل بدل جائے گی اور فزکس کی دنیا میں بہت بڑا انقلاب آجائے گا ۔
    سائنسداں کائنات کے آغاز اور اس کو ارتقا ( Evolve) کرتے ہوئے اور جہاں dust cloud کے پیچھے ستاروں کا جنم ہوتا ہے ، اس جگہ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔
    جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کائنات برابر پھیل رہی ہے اور پھیلتے ہوئے اس کی روشنی سرخ ہوجاتی ہے جسے Red shift کہتے ہیں اور مزید تیزی سے پھیلتے ہوئے یہ سرخ روشنی Infrared ہوجاتی ہے ۔ ہبل ٹیلسکوپ اس روشنی کو نہیں دیکھ سکتا ۔ یہ کہکشائیں اتنی دور چلی جاتی ہیں جہاں سے ان کی روشنی ہمیں نظر نہیں آتی ۔ جیمس ویب ٹیلسکوپ میں
    New infrared camera IR instrument
    لگا ہوا ہے اس لیے یہ انتہائی دور جاتے ہوئے
    گلکسیز کے Infrared روشنی کو دیکھ کر ہمیں ان گلکسیز ( کہکشاؤں) کی بالکل صحیح حالت کو بتائے گا جس سے کائنات کی وسعت کو اور ان کی ابتدائی حالت کو سمجھنے مین مدد ملے گی ۔
    کائنات اور زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس گتھی کو سلجھانا جیمس ویب ٹیلسکوپ کا اہم مشن ہے ۔ اس کی مدد سے سائنسداں کائنات کا زیادہ بہتر طریقہ سے مطالعہ اور تحقیق کرسکیں گے
    جیمس ویب (JWST ) ٹیلسکوپ کا فزکس کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا سفر شروع ہوچکا ہے ۔ تازہ اطلاع کے مطابق جولائی سے یہ پوری طرح کام کرنے لگے گا ۔ اس کی مدد سے سائنسداں تفہیم کائنات کے ایک عظیم اور محیر العقول سفر کا آغاز کردیا ہے ۔
    ان کے مقابلہ میں مسلم ملکوں کا کیا حال ہے ۔
    خلائی تحقیقات کا ایک بھی قابل ذکر ادارہ دنیا کے کسی مسلم ملک میں نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں السماء سے متعلق کتنی آیات ہیں جو جدید تحقیقات کی متقاضی ہیں لیکن ان کی تحقیقات نہیں کی جا سکیں ۔ مجھے قرآن کی آیہ " وجعلنا السماء سقفا محفوظا ... " کو سمجھنے کے لیے جدید فلکیاتی تحقیقات کی طرف رجوع کرنا پڑا تب اس کی تفسیر سمجھ میں آئی ۔ اللہ مسلم ممالک کی حالت پر رحم فرمائے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    Director
    Amena Institute of Islamic Studies and Analysis
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    ہندستان کا اخلاقی بحران
    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی ندوی رحمہ
    اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں :
    " ہم امید کرتے ہیں کہ للہ تعالی ہمیں اس ملک کی قیادت عطا فرمائیں گے ۔
    " اس ملک کا کوئی عنصر اس قابل نہیں رہا کہ اس ملک کو بچاسکے ، سب دولت پرست ہیں ، اقتدار پرست ہیں ، مادہ پرست ہیں ، دنیا پرست ہیں اور ہوس پرست ہیں " ۔
    ملک کی ایسی بوالہوس قیادت اس کی کیا حفاظت کرے گی ! اس لیے اب ناگزیر ہوگیا ہے کہ اس کی قیادت اس طبقے کے حوالے کردی جو اس کی اور یہاں کے عوام کی حفاظت کرسکیں ۔ اس میں
    عطا مومن کو پھر دربار حق سے ہونے والا ہے
    شکوہ ترکمانی ، ذہن ہندی ، نطق اعرابی
    علامہ اقبال رحمہ