Maulana Saeed ur Rahman Azmi Nadvi

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 6. 09. 2024
  • Maulana Saeed-ur-Rahman Azmi Nadvi is an Indian Islamic scholar who serves as the Principal of Darul Uloom Nadwatul Ulama. He is also the chancellor of Integral University.

Komentáře • 27

  • @abdulkasim5930
    @abdulkasim5930 Před rokem

    ‌اللھم‌۔آمین‌۔‌یا‌رب‌العالمین‌۔

  • @HafizNiyazSpeeches
    @HafizNiyazSpeeches Před rokem

    MashaAllaha ❤️ jigar

  • @mohdziyauddeen1984
    @mohdziyauddeen1984 Před rokem

    بہت خوب

  • @mohdtanveeralamnadwi269
    @mohdtanveeralamnadwi269 Před 3 lety +1

    ایک حصہ اھتمام کا رہ گیا جو بہت یادگار ہے

  • @KamranAshrafKa
    @KamranAshrafKa Před 3 lety +1

    ماشاءاللہ،کم وقت میں آپ نے اچھی روشنی ڈالی،اللہ استاذ مکرم کی عمر میں برکت عطا فرمائے،

  • @mohdsameem3171
    @mohdsameem3171 Před 3 lety +1

    Allah pak molana ko sihatu afiyat ke sath lambi umr ata farma. Ameen

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    ماوراء النہر
    وسط ایشیا کا مطالعہ ١٩٩١
    نئی آزادی نئے چیلنج
    کیسپین کے ساحل سے چین کی سرحد تک پھیلا ہوا وسط ایشیا کا وسیع و عریض علاقہ
    ، شمال میں جس کی حدیں روسی سائبیریا کے کے یخ بستہ میدانوں کو چھوتی ہیں اور جنوب میں ، ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں
    توران یا ما آراء النہر کہلاتا تھا --- ما آراء النہر کا یہ علاقہ دریائے جیحون کے اس پار ہے ۔
    وسط ایشیا کی یی سرزمین ، جہاں سے ایک زمانہ میں شاہ ریشم گزرتی تھی ، زبردست فوجی اور اقتصادی اہمیت کا حامل رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہ سر زمین ایک دوسرے سے نبرد آزما سلطنتوں کی آماجگاہ بنی اور اس پر پے در پے طالع آزماؤں اور توسیع پسندوں کے طوفانوں کی یلغار رہی ہے ۔
    تیموری خاندان کے درخشاں دور کے بعد اس علاقہ پر توسیع پسندی کا ایک اور سخت یلغار
    شمال میں روس سے ہوئی اور اس کے نتیجے میں 1873 تک اس وسیع و عریض مسلم علاقہ پر زار روس کا تسلط ہوگیا اور اس مناسبت سے اس کا نام روسی ترکستان پڑ گیا ۔
    پھر ستر سال پہلے روس پی کی سمت ایک اور طوفان اٹھا ۔ یہ کمیونسٹ انقلاب کا طوفان تھا ۔ اس نے ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لے لیا جہاں جہاں زار روس کا اثر تھا ۔
    کمیونسٹ تسلط کے دوران اس پورے علاقہ کا سرے سے نقشہ ہی بدل گیا ۔ کمیونسٹوں نے نہ صرف اس علاقہ پر اپنا نظریاتی نظام ، مرکزی بند منصوبہ بند معیشت اور روسی زبان مسلط کی بلکہ اسے پانچ جمہوریاؤں میں تقسیم کردیا اور آبادی کے تناسب کو درہم برہم کردیا ۔
    ١٩٩١ کے آخر میں سویٹ یونین کے ٹوٹنے کے بعد ان جمہوریاؤں کو آزادی ملی ۔ ہم اس آزادی کے بعد کی پیدا شدہ صورت حال کا مطالعہ کریں گے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadilaeeque@gmail.com

  • @abdulkasim5930
    @abdulkasim5930 Před rokem

    ‌ماشا‌ءاللہ‌۔جزاکم‌اللہ‌خیرا‌۔

  • @hassannoumani4515
    @hassannoumani4515 Před rokem

    👍👍

  • @mohammadjunaidkhannadwi6988

    Aameen.hazrat.mere.bhi.ustaaz.hen.

  • @salmanarifofficialchannel5837

    ماشاءاللہ ۔
    بہت خوب

  • @abdurrawoofnasir2030
    @abdurrawoofnasir2030 Před 3 lety +1

    ماشاءالله بہت بہتر ہے، ساتھ ساتھ آپ مولانا رابع حسنی ندوی مدظلہ اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ندوی مدنی کی زندگی پر روشنی ڈالے۔

  • @anaspathan2346
    @anaspathan2346 Před 3 lety

    ❤❤❤❤

  • @motiulhaque4884
    @motiulhaque4884 Před 2 lety

    محترم نقی صاحب ۔حضرت مولانا سعیدالرحمن صاحب کی تاریخ پیدائش 1935نہیں 1934ہے

  • @anaspathan2346
    @anaspathan2346 Před 3 lety

    ✔️✔️✔️✔️✔️✔️✔️

  • @hrfitness1050
    @hrfitness1050 Před 3 lety +2

    Aapke baare me jo fake news pehlrahi he uske baare me wazahath farmasyiye

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    مفکر اسلام علامہ ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ کی مشہور زمانہ تصنیف :
    ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين
    مسلمانوں کے زوال سے دنیا کو کیا نقصان ہوا
    سے ہوا ۔
    علامہ ندوی رحمہ کا عالم عرب میں تعارف اور مقبولیت ان کی مذکورہ بالا تصنیف سے ہوا
    1944 کے زمانہ میں علامہ ندوی رحمہ کے دل میں اس کتاب کے لکھنے کا خیال آیا ، اس وقت ان کی عمر تیس سال سے زائد نہ تھی ، یہ خیال اور اس کا تقاضہ اس قدر ان پر غالب ہوا کہ انہوں اس پر لکھنے کا فیصلہ کرلیا اور عربی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی ۔
    علامہ ندوی رحمہ عربی زبان و ادب کے ماہر تھے اور عربی میں تحریر و تقریر پر ان کو پوری قدرت اور ید طولی حاصل تھا ۔ وہ عالم عرب کو اسی کی زبان میں مخاطب کرتے تھے ۔ اگر عالم اسلام کا کوئی عالم دین اس زبان میں تحریر و تقریر میں مکمل قدرت نہیں رکھتا ہے تو علماء عرب میں مقبول نہیں ہوسکتا ہے ۔ وہاں کے بڑے بڑے اہل علم و فضل اسے سند قبولیت عطا نہین کریں گے اور اس کے بغیر عالم عرب میں کسی کی شخصیت مستند اور معتبر نہیں ہوسکتی ۔
    علامہ ندوی رحمہ کی یہ کتاب پہلی بار قاہرہ ، مصر کے معروف ادارہ ' لجنة التأليف والترجمة والنشر ' قاہرہ سے شائع ہوئی تو بہت مقبول ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی ۔ کیا عوام اور کیا خواص ، کیا شاہی و حکمراں طبقہ اور کیا علماء و مفکرین و مشاہیر عرب سب کو اس اہم ، تاریخی شاہکار تصنیف نے متاثر کیا ، ان کے اندر زندگی کی لہر پیدا کردی اور ان کے اندر جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ پیدا کردیا ۔ انہوں نے اس کتاب کو وقت کی ایک اہم ضرورت ، اور اسلام کی اہمیت وضرورت کو سمجھانے کے لیے ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش قرار دیا ۔
    مصر کے مشہور ادباء اور اہل قلم احمد امین ، ڈاکٹر محمد موسی اور سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ۔ شیخ احمد الشرباصی نے ' ابوالحسن علی الندوی
    ' صورة وصفية ' کے عنوان سے علامہ ندوی رحمہ کا بہتر تعارف کرایا ۔
    سید قطب شہید رحمہ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر جو چند کتابین پڑھی ہین ، ان میں اس کتاب کو خاص مقام حاصل ہے یہ کتاب بڑی مدلل ، مربوط اور حقیقت پسندانہ علمی اسلوب میں لکھی گئی ہے ۔ اس کتاب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے اس موضوع کو اس کے اصول وکلیات کے وسیع دائرے اور اس کی صحیح روح کے مطابق پوری گہرائی سے سمجھا اور پیش کیا ہے ۔ اس بناء پر یہ کتاب تاریخی ، اجتماعی اور دینی تحقیق کا ایک بہتر اور شاندار نمونہ ہے بلکہ اس کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ اور اس کی تصویر کو کس طرح دنیا کے پیش کرنا چاہیے " ۔
    اس کتاب میں فاضل مصنف نے یہ دکھایا ہے کہ مسلمانوں کے زوال سے عالم انسانی پر کیا منفی اثرات پڑے اور عالم انسانیت کو اس سے کیا نقصانات پہنچے ۔ یہ بہت اہم اور تاریخی نکتہ ہے جس کی اہمیت کو علامہ ندوی رحمہ سمجھا اور اسے بہت ہی مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔
    اسلام سے پہلے جب ایک اللہ کے تصور ، اس کی ذات پر ایمان اور صرف اس کی عبادت سے انسانیت منحرف اور نآ آشنا ہوچکی تھی اور ربانی تعلیم و تربیت کو بالکل فراموش کر چکی تھی جس کی وجہ سے دنیا کی تمام قوموں کی مذہبی اخلاقی ، سیاسی ، معاشی اور تمدنی حالات انتہائی خراب اور زبوں حالی کا شکار ہوچکے تھے ۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرانی تعلیمات و تربیت کے ذریعہ جزیرة العرب کے عربوں کو جہالت اور تاریکی سے نکال کر ان کی زندگی کو بالکل بدل کر ان کے اندر قرآنی اخلاق پیدا کردیا ۔ ان کے ایمان و عقیدہ اور افکار و اعمال مین توحید کی اساس پر عظیم الشان انقلاب برپا کردیا ۔
    امہ مسلمہ کا مقصد وجود :
    ساتوین صدی کی پہلی چوتھائی میں جو امہ مسلمہ رسول آخر الزمان کی تعلیم و تربیت سے وجود میں آئی وہ گزشتہ تمام نبوتوں ، رسالتوں اور امتوں کی وارث اور ان کا آخری نقش تھی ۔ ایمان و عقیدہ اور فکر و نظر کے اعتبار سے اللہ جل شانہ کے نزدیک انسانوں کی صحیح اور قابل قبول حالت یہی ہے ۔ یہ امہ جس مقصد اور نصب العین کے لیے نکالی گئی ہے وہ تاریخ کے تمام انبیاء اور پیغمبر آخر الزمان کی بعثت کا اصل مقصد ہے ۔
    كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف و تنهون عن المنكر و تؤمنون بالله ...
    ( آل عمران : ١١٠)
    تم بہترین امہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے ۔ تم معروف کو حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو ۔
    امہ مسلمہ کی تعلیم و تربیت مکمل ہونے کی گواہی اللہ جل شانہ نے خود قرآن میں دی ہے کہ وہ اب اس کی قابل ہوگئی ہے کہ اسے عالم انسانیت کی قیادت وسیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔
    الذين إن مكنهم فى الأرض أقاموا الصلوة و أتوا الزكوة و أمروا بالمعروف و نهوا عن المنكر ولله عاقبة الأمور o ( الحج : ٤١)
    یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہہں زمین پر اقتدار تو وہ نماز قائم کریں گے ، زکوة دیں گے ، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
    اس کے بعد دنیا نے دیکھا کہ یہ اہل ایمان جزیرة العرب سے نکل کر کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ میں پھیل گئے اور اسلام کے نور سے دنیا کو منور اور اس کے عدل و مساوات پر مبنی تعلیمات سے روشناس کیا اور انسانی تاریخ میں پہلی بار دنیا کے سامنے جدید اسلامی نظام ( New Islamic Order )
    پیش کیا گیا ۔
    اللہ کے بندے بندوں کی عبادت اور غلامی سے نکل کر اللہ جل شانہ کی عبودیت اور غلامی میں داخل ہوکر آزاد ہوگئے ۔ ہزاروں سال کی غلامی کے بعد انہیں حقیقی آزادی ملی ۔ تیئیس سالہ نبوت و رحمت کا عہد اور تیس سالہ خلافت راشدہ کے دور نے ایک بالکل نئی دنیا سے عالم انسانیت کو متعارف کرایا ۔
    ہوئے احرار ملت جادہ پیما اس تجمل سے
    تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے انسانی
    علامہ اقبال رحمہ
    اسلامی تعلیمات کی وجہ روئے زمین میں ایک ایسی امت پیدا ہوئی جو عالم انسانیت کے لیے نمونہ عمل بن گئی اور ایک زمانہ تک یہ امت عالم انسانیت کی قیادت و سیادت کے مقام پر فائز رہے ۔
    لیکن جب یہ امت زوال پذیر ہوئی اور اس کا انحطاط شروع ہوا تو اقوام عالم کی سیادت و قیادت اس کے ہاتھوں سے نکل کر ان مغربی اقوام کے ہاتھوں میں آگئی جو اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم و نا آشنا تھے اور جن کا نقطہ نظر مادہ پرستی ، نفس پرستی تھا ، جو فکر آخرت اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے تصور سے نا آشنا تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی پرانی جاہلیت نئی شکل و صورت میں جلوہ گر ہوگئی ، اور انسانیت اس فیض اور خیر و برکت سے محروم ہوگئ جو اسلام لے کر آیا تھا ۔
    علامہ ندوی رحمہ نے اس کتاب کے لکھنے کی اصل وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں .
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    واقعہ کربلا اسباب و عوامل
    تحفظ اسلام اور بقاء خلافت کی جنگ
    ( 5 )
    روئے ارض پر " ملک اللہ " قائم کرنا سب سے بڑا فرض ہے ۔ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کی وہاں " حکم اللہ " قائم و نافذ تھا ۔
    معاویہ رضی اللہ نے اس کو ختم کردیا اور یہاں سے امہ کا تعطل ، اس کی اسلامی حیویت کا خاتمہ اور زوال شروع ہوگیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتھ ہی وہ دروازہ توڑ دیا گیا تھا
    جو آنے والے حادثات اور واقعات کو روکے ہوئے تھا لیکن ٦٦١ میں خانوادہ نبوت کو اس طرح تہ تیغ کرنے کے بعد یہ اسلام مخالف طاقت پوری قوت دے متحرک ہوگئ اور اسے پوری طرح غلبہ حاصل ہوگیا ۔
    جیساکہ عرض کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روئے ارض پر " حکم اللہ " کی اقامت فرمائیں تھی ۔ یہ اقامت ایک کلی اور کائناتی اقامت تھی ۔ یہ حکم اللہ بتمام و کمال وفات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قائم رہا ۔ یہی عہد ر حقیقت ہر اعتبار سے صلاح فی االارض کا کامل عہد ہے ۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا دور آیا ۔
    معاویہ رضی اللہ عین نے کا انحراف کوئی ایسا معمولی انحراف نہ تھا کہ امہ اس کو بالکل نظر انداز کرکے خوشدلی سے اسے قبول کرلیتی
    بالخصوص یزید کا غیر عادل ہونا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ ملک اللہ پر قبضہ کرلینا تو " منع زکوة " کے مقابلے میں بہت خطرناک واقعہ تھا ۔ اس لیے کہ منع زکوة کی وجہ سے صرف اتنا ہوتا کہ دین کا ایک حصہ اس سے علیحدہ ہوجاتا جبکہ وہ " ملک اللہ " باقی رہتا جس کی اقامت روئے ارض پر مقصد بعثت نبی آخر الزمان تھی ۔ لیکن خود اس ملک اللہ پر ہی قبضہ کرلینا تو پورے مقصد بعثت کا ہی خاتمہ کردینا تھا ۔
    " کسی غیر عادل حکمراں اور غیر عادل نظام کے خلاف خروج کو اس وقت تک ناجائز قرار دینا جب تک کہ اس کے خاتمے کا ممکن اور یقینی نہ ہوجائے در اصل اس ظلم کی چکی کو
    جو اپنے مخالفین کے لیے ایسے غاصب و قابض اور ظالم حکمران کو جو مسلم عوام پر ظلم و جوڑ کو روا رکھے سند جواز عطا کرنا ہے ۔
    اس طرح اسلامی حیویت اور مسلم معاشرے کی اس قوت کو توڑنا شروع کردیا گیا جو اصلاح نظام کے لیے ضروری تھی اور رفتہ رفتہ وہ قوت کمزور ہوتے ہوئے بالآخراصلاھ کرنے کی قوت ، عزم اور خواہش عاری ہوگئی ۔
    آہستہ آہستہ پوری امہ اپنی مقصد وجود ہی سے نا بلد ہوتی چکی گئی ۔
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    معراج الرسول صلی اللہ علیہ وسلم
    جدید سائنس کی روشنی میں
    کھلا ہے مجھ پہ یہ معراج مصطفی سے
    کہ عالم بشریت کے زد میں کے گردوں
    ( 4 )
    اللہ جل شانہ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :
    بديع السموات والأرض إذا قضى أمرا فإنما يقول له كن فيكون o ( البقرة : ١١٧ )
    ( وہ اللہ کی ذات ) سب آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ ایک امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے صرف اتنا کہنا کافی ہوتا ہے کہ
    " ہوجا " تو وہ ہوجاتی ہے ۔" ۔
    واقعہ معراج اللہ کی غیر محدود قوت اور قدرت کا مظاہرہ تھا ۔ آج کا دور خلائی تحقیقات کا دور ہے ۔ اس لیے ساتویں صدی کے ابتدائی زمانہ کے مقابلہ میں اکیسویں میں اس محیر العقول واقعہ کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے ۔
    اس سلسلے میں البرٹ آئنسٹائن کا نظریہ
    Special Theory of Relativitty
    قابل ذکر ہے . اس کے مطابق وقت ایک اضافی شئ ہے جو Frame of reference
    کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص زمین پر ہے تو اس کا وقت الگ ہوگا اور جو شخص خلا میں سفر کر رہا ہے
    اس کا وقت الگ ہوگا ۔ اس نے وقت ( زمان ) اور خلا ( مکان ) کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان و مکان ( Space and Time) کو مخلوط شکل میں پیش کیا ہے ۔
    روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلومیٹر ہے اور یہ مستقل ( Constant) ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرے تو وقت اس کے لیے رک جائے گا ۔ اس کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو صفر وقت میں ہوگا ۔
    سفر معراج جبرئیل ، میکائیل علیہما السلام اور دیگر ملائکہ کی معیت میں براق پر ہوا تھا ۔
    یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ براق جنت سے لائی ہوئی ایک نوری سواری تھی جو اللہ جل شانہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی ۔
    آئنسٹائن نے جس روشنی کی رفتار کا ذکر کیا ہے وہ ہماری معلوم دنیا کی روشنی ہے ۔ براق کی نوری سواری اپنی کیفیت میں اس کائنات کی روشنی سے بالکل مختلف ہے ۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہین کہ اس نور کی سواری کی سرعت کا تصور آج کی سائنس کرنے سے قاصر ہے !
    جب واقعہ معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ
    سرعت سے ہوا تو وقت کی رفتار رک گئی ۔
    اس میں وقت نہیں لگا ۔ یہ سفر Timeless تھا ۔
    اس کائنات میں کئی جگہ پر سائنسداں روشنی کی رفتار سے تیز رفتار کا ذکر کرتے ہین ۔ وہ کہتے ہین کہ ساری کہکشائیں
    روشنی سے زیادہ تیز رفتار سے پھیل رہیں ۔ یہاں آئنسٹائن کی بات غلط ثابت ہورہی ہے کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز سفر نہیں کرسکتی ۔ اس طرح Tachyon particle کے بارے تجربہ کیا جارہا ہے کہ وہ بھی روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرسکتا ہے ۔ یہ نظریہ ابھی زیر تجربہ ہے ۔ جس ذرہ کی کمیت نہ ہو ( Massless) ہو اس کی رفتار روشنی سے تیز ہوتی ہے ۔
    روشنی سے تیز رفتار سفر کرنے کو سائنسداں تسلیم کر چکے ہیں ، سفر معراج روشنی کی رفتار سے زیادہ سرعت سے ہوا تھا ۔ اس لیے اس میں کوئی وقت نہیں لگا ۔ یہ آج کی جدید سائنس عین مطابق ہے ۔ اس لیے اس کا انکار غیر سائنسی ہے ۔
    اس سلسلے میں دوسری اہم بحث وقت کے بارے میں ہے ۔ وقت کیا ہے ؟ کیا یہ اس کائنات کا بنیادی حصہ ہے ؟ سائنسداں کہتے ہیں کہ کائنات کو اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ کائنات کے تناظر میں وقت بے معنی ہے ۔
    کوانٹم ورلڈ( Quantum world ) میں جو
    جو بہت ہی چھوٹے ذرات ( Particles ) کے برتاؤ سے بحث کرتی ہے وقت کی کوئی ضرورت نہیں ۔
    نیورو لوجسٹس( Neurologists ) اس کی تشریح کرتے ہیں کہ وقت ایک دماغی عمل ہے جو واقعات کے بدلنے کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ وقت کا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتے ۔ وقت کائنات میں آنے والی تبدیلی کو کہتے ہیں ۔ یہ ایک اضافی (relative ) چیز ہے ۔ سچائی کی گہرائی میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔
    ہماری عقل و فہم کی نارسائی اس عالم محسوسات میں صاف نظر آتی ہے تو ماورائے محسوسات میں ہماری عقل و فہم اور ادراک کی نارسائی کا کیا حال ہوگا ؟ اگر ہم جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں دیکھیں تو
    یہ بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے کہ سفر معراج ممکن ہے اور کائنات میں جاری و ساری طبعی قوانین کے عین مطابق ہے ۔
    جدید سائنسی نظریات اور مباحث کی روشنی
    میں سفر معراج کا امکان اور اس کا وقوع قابل فہم ہے ۔ اس کا انکار کرنا غیر سائنسی ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.comخ

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 2 lety

    بوسنیا ہرزگوینا یوروپ کے خطہ بلقان کا
    کا مسلم ملک اسلام اور مسلم دشمنی کا شکار
    میں یوروپ کی امہ مسلمہ کی تاریخ کے اس
    اندوہناک دور میں ان کا شریک غم ہوا ۔
    1991 میں سویٹ یونین کے ختم ہونے کے بعد
    خطہ بلقان میں صورت حال بالکل بدل چکی تھی اور یہاں کی قوموں نے آزادی کا راستہ اختیار کرلیا تھا ۔ بوسنیا ہرزیگوینا نے بھی آزادی کا اعلان کردیا تھا تو یہان جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے ۔
    سربیا ، یہاں کے یہودی - عیسائیوں اور یوروپی ممالک کو یہ ہرگز گوارا نہیں تھا کہ یہاں ایک مسلم ملک بنے ۔ اس لیے اس کے خلاف خونریز جنگ چھیڑ دی گئی ۔ اس وقت یہاں کے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے تھے اور انہین خاک و خون مین آلودہ کردیا گیا تھا اور لاکھوں مسلمانوں کو مار ڈالا گیا ۔ یہ یہاں کے مسلمانوں کی بہت ہی دردناک اور خونچکاں داستان ہے ۔
    اس وقت میں دوحہ قطر میں انگریزی عربی -- مترجم کی حیثیت سے کام کررہا تھا ۔ میں اس خطہ کے مسلمانوں حالات سے بہت متاثر ہوا ۔ میں نے یہاں کے حالات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنا شروع کردیا ۔ یہاں کی تاریخ اور یہاں کے مسلمانوں کے حالات اور جنگ کے وقت کے حالات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد بہت مواد جمع ہوگیا ۔ اس کو ترتیب دینے کے بعد یہ ایک کتاب ہو گئی ۔ یہ مسودہ کی شکل میں تھا ۔ اس مین مزید اصلاح اور تنقیح کی ضرورت تھی لیکن اسی حالت میں یہ کتاب شائع کردی گئی ۔ کلکتہ سے شایع ہونے والے مشہور ماہانہ میگزین کے اڈیٹر ف ۔ س اعجاز نے اس کا بہت اچھا پیش لفظ لکھا اور یہ کتاب انہی کے پریس سے شائع کردی گئی ۔
    اس کا نام میں نے ' خطہ بلقان اور نو آزاد مسلم ملک بوسنیا ہرزیگوینا ، تاریخی پس منظر ، داستان حال اور مستقبل کے امکانات ' رکھا ۔
    یہ کتاب 7 اگست 1995 مین کلکتہ سے شائع ہوئی ۔ میرا مقصد صرف بوسنیا کےمسلمانوں پر اس انتہائی مظالم کے وقت ان کے دکھ درد مین شریک ہونا اور اردو دان طبقہ کو اس خطہ کے مسلمانوں کے حالات سے آگاہ کرنا تھا ۔
    " خوشی کی بات کہ محمد لئیق ندوی صاحب جو گزشتہ چند برسوں سے دوحہ قطر میں ایک عربی/انگریزی مترجم کے عہدے پر مامور ہیں ، نے پہلی بار اردو داں طبقہ کے لیے ایک ایسی کتاب کی تالیف کا فریضہ انجام دیا ہے جو خطہ بلقان اور بوسنیا ہرزگوینا کا مکمل تاریخی پس منظر بھی پیش کرتی ہے اور ایک حساس اور اچھے آدمی کے گوش نصیحت نیوش کے لیے بوسنیا و ہرزگوینا کے مظلوم کے عبرتناک احوال بھی سناتی ہے ۔
    کتاب کے مختلف ابواب بوسنیائی مسلمانوں کی داستان حال ، ان کے مستقبل کے امکانات
    بوسنیائی اور کروشیائی تعلقات کی نوعیت اور یوگوسلاویہ اور روس کی نسبت سے بوسنیائی مسلمانوں کے کمیونزم کے ساتھ جو تجربات ہوئے ان کا احاطہ کرتے ہیں ۔
    محمد لئیق ندوی نے ایک بڑا کام یہ انجام دیا ہے کہ کافی تلاش و تحقیق کے بعد اس سلسلے میں برطانوی موقف کی اس حد تک صراحت کردی ہے کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی ، آزاد پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی سبھی پارٹیوں کے نکتہ ہائے نظر واضح ہوگئے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے کل مغربی برادری کی ذہنیت کو بے نقاب کرڈالا ہے ۔
    ف س اعجاز
    مدیر ماہنامہ انشاء ، کلکتہ
    17 اگست 1995
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @tahmadullahjaunpuri2410

    Integral to Sirf nam ki hai waha se maulana hata bhi diye gaye bas Sirf nam hai

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 3 lety

    مولانا جلال الدین عمر ی
    شاہ ولی اللہ رحمہ ایوارڈ سے سرفراز
    جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا جلال الدین عمری کو ان کی علمی ، فکری اور دعوتی
    خدمات کے اعتراف میں او آئی ایس (IOS ) کے چودھویں شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے ۔ انہیں ایک لاکھ روپے کا چیک ، مومینٹو اور شال پیش کیا گیا ۔ یہ تقریب آں لائن زوم پر منعقد ہوئی اور آں لائن ہی شرکاء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ مولانا عمری کو آئی او ایس نے ان کی مذکورہ خدمات کی بنا پر جس ایوارڈ سے سرفراز کیا ہے وہ اس کے مستحق ہیں ۔
    اسلامی افکار و نظریات پر مغربی مستشرقین اور اسلام مخالفین فلاسفرس کی طرف سے صدیوں سے حملے اور زہر افشانیاں کی جاتی رہی ہیں جن سے اسلام کی شبیہ متاثر ہوتی رہی ہے اس لیے اسلامی اسکالرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کا جواب دیں اور اس محاذ پر کام کریں ۔
    اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی کشمکش صدیوں سے جاری ہے اور اب یہ جنگ کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ مسلم ممالک پر ناٹو کے حملے صلیبی اور تہذیبی حملے ہیں ۔
    باطل کے کر و فر کی حفاظت کے واسطے
    یوروپ ذرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
    ان دو حریفوں میں چودہ دو سال سے کشمکش اور حرب و ضرب جاری ہے ۔ سقوط عثمانی خلافت کے بعد امہ مسلمہ ہر طرف سے
    مغربی اعداء کے نرغے میں آگئی ہے اور اس پر ہمہ جہت حملے ہو رہے ہیں ۔
    آج امہ مسلمہ جس بحران سے دوچار ہے وہ نظری بھی ہے اور عملی بھی ۔ تین سو سال سے ملحدانہ نظریہ ارتقا ایک عالمی تحریک کی شکل میں اسلام کے سارے بنیادی تصورات اور
    ایمانیات کا انکا کرتی آرہی ہے ۔ مسلمانوں میں بہت سے اسلامی اسکالرز اور دانشور اس کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کی ہمنوائی کر رہے ہیں
    بہ الفاظ دیگر اسلام کی بنیادوں کو مسمار کر رہے ہیں ۔
    چوں کفر از کعبہ برخیزد
    کجا ماند مسلمانی
    علماء اسلام اور مخلص اہل علم و دانش کو موجودہ علمی اور تہدیبی صورت حال کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنے کی ضرورت اور علمی میدان میں زیادہ سے زیادہ محنت اور سنجیدگی سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com

  • @laeequenadvi4746
    @laeequenadvi4746 Před 3 lety

    دینی مدارس میں عصری تعلیم کی تجویز
    دینی مدارس کے قیام کا اصل مقصد کیا ہے ؟
    برصغیر میں مسلم حکومت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کے غاصبانہ قبضہ نے امام نانوتوی رحمہ کو سخت تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا تھا ۔ ان کو بر صغیر میں دین و شریعت کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی حفاظت کی فکر ستانے لگی ۔ مسلمان مغلوب اور محکوم ہوچکے تھے ، حالات بہت تشویشناک اور مستقبل پر خطر نظر آرہا تھا ۔
    ایسے انتہائی پریشان کن حالات میں غور و فکر کے بعد انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد
    ڈالی ۔ یہ صرف ایک علمی درسگاہ کی بنا نہیں تھی بلکہ یہ ایک فکری اور اجتماعی تحریک کا بھی آغاز تھا ۔ اس تحریک نے دین و شریعت اور علوم اسلامیہ کی حفاظت ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی حفاظت میں کلیدی اور عظیم تاریخی کردار ادا کیا ۔
    اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دینی مدارس کے قیام کا اصل مقصد کیا ہے ۔ ان کا اصل مقصد قرآن و حدیث اور اسلامی قوانین کے ماہرین پیدا کرنا ، دین متی کا تحفظ اور اس کی تبلیغ و اشاعت ہے ۔ یہی اصل مطلوب و مقصود ہے اور اس کے لیے جن علوم کی تعلیم دی جاتی ہے وہ خود زیادہ ہیں ۔
    کچھ جدید تعلیم یافتہ جن کو دینی مدارس اور دینی نظام تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ مدارس کے نصاب تعلیم میں سائنسی علوم بھی شامل کیے جائیں تاکہ مدارس کے فارغین عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکیں اور عزت کے ساتھ کسب معاش کرسکیں ۔
    یہ لوگ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ قرآن میں سائنس علوم کا تذکرہ ہے ۔ وہ ہمیں آفاق و النفس میں جستجو اور مطالعہ و تحقیق کی طرف متوجہ کرتا ہے اس لیے سائنسی علوم کو مدارس کے نصاب تعلیم میں داخل کرنا قرآن کا تقاضا ہے جس سے مدارس کے ذمہ داران غفلت برتتے آرہے ہیں ۔
    پہلے دور میں مسلم علماء ایک طرف دینی علوم کے ماہر تھے تو دوسری طرف ریاضی اور سائنسی علوم پر بھی دسترست رکھتے تھے ۔ ان کے لیے قرآن میں دین و سائنس دونوں کے لیے رہنما ہدایات موجود تھے ۔ اگرچہ سائنسی علوم کا تعلق براہ راست شریعت سے نہیں ہے لیکن ان کو نظر انداز کرنا اور چھوڑ دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے ۔
    دینی مدارس کے فارغین کا دوسرا اہم مسئلہ کسب معاش کا ہے ۔ تعلیم کا تعلق کسب معاش سے بھی ہے نظام تعلیم و تربیت ایسا ہونا چاہیے جو کسب معاش میں بھی معاون ہو تاکہ فارغین مدارس آ چھی اور باعزت زندگی گزار سکیں ۔ اس کے لیے نصاب تعلیم کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا وقت کا شدید تقاضا ہے ۔ عصری علوم کو نصاب تعلیم میں مناسب جگہ دینا اچھی 😑 اور باعزت زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے
    کہنے اور سننے میں یہ باتیں بہت اچھی لگتی ہیں اور نفس پر اثر کرتی ہیں ۔ یہ بات کالج اور یونیورسیٹیوں کے فارغین سے کہنی چاہیے کہ پہلے کے سائنسدان دینی علوم کے بھی ماہر ہوتے تھے آپ کو بھی ان علوم میں مہارت پیدا کرنی چاہیے تاکہ آپ انفس و آفاق کے تقاضوں کو پورا کرسکیں ۔ یہ عصری تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے یہ ان کے لیے آسان اور قابل عمل ہے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ۔ ان کے لیے روا ہے کہ اچھی ملازمت حاصل کریں اور عیش و عشرت کی زندگی گزاریں ۔ ان کی ساری نصیحتیں ، مشورے اور تجاویز دینی مدارس کے ذمہ داروں کے لیے ہیں جو مالی اور تعلیم و تربیت کے مسائل کا ہمیشہ سامنا کرتے رہتے ہیں ۔
    دینی مدارس کا رخ غریب طبقہ کے بچے کرتے ہیں جن کے قیام و طعام کا مفت انتظام ہوتا ہے
    اور مسلمانوں کے بچوں کے صرف چار فیصد ہوتے ہیں ۔ فراغت کے بعد عموما وہ دینی مدارس میں تدریس میں لگ جاتے ہیں یا شہروں کے مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور ٹیوشن کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ ہند میں ہزاروں لاکھوں دینی مدارس ہیں جن میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے لاکھوں باصلاحیت مدرسین کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مدارس کی ان ضرورتوں کو کون پورا کرے گا ؟ شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس اور مساجد میں کام کرنے والوں کی تنخواہ میں اضافے کی بات کی جائے اور اس سلسلےمیں مسلمان غور وفکر اور ضروری اقدامات کیے جائین ۔ میں جب اس موضوع پر سوچتا ہوں تو آبدیدہ ہوجاتا ہوں کہ مسلمانوں نے کس قدر مدارس کے فضلاء اور فارغین معاشرہ میں کمزور اور قابل افسوس حالت میں مبتلا کردیا ہے ۔ اس قوم پر اللہ کا جتنا بھی عذاب نازل ہو کم ہے
    اس نے قرآن و حدیث کی تعلیم و تربیت کی اپنے عمل سے تذلیل اور تحقیر کی ہے ۔ انہوں نے علماء دین کی یہ حالت کی ہے اس لیے اللہ نے مسلمانوں کو اس حالت میں مبتلا کر رکھا ہے جس میں وہ آج ہیں ۔
    گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے بعد مصر میں اسلامی دینی تعلیم میں ترمیم و تبدیلی کے اسرائیلی امریکی مطالبہ کا ذکر ہونا شروع ہوا ۔ اس دینی تعلیم سے مراد وہ خاص نظام تعلیم و تربیت ہے جو مخلتف مسلم ممالک کے دینی مدارس ، دارالعلوم اور شرعی مراکز میں رائج ہے ۔ مثلا ہند میں دارالعلوم دیوبند ، دارالعلوم ندوة العلماء اور دیگر دینی مدارس ، پاکستان کی معروف دینی درسگاہیں اور دیگر مسلم ممالک کے دینی مدارس " ۔
    (پروفیسر مسعود الرحمن خان ندوی
    زندگی نو فروری ٢٠٠٤)
    جاری
    ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
    ڈائرکٹر
    آمنہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ انالائسس
    A Global and Universal Research Institute
    nadvilaeeque@gmail.com