Main Nahi Manta By Habib Jalib

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 7. 09. 2024
  • حبیب جالب صاحب کی انقلابی نظم
    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو صبح بے نور کو
    میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
    میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
    میں بھی منصور ہوں کہہ دوں اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
    ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
    پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
    جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
    چاک سینوں کے سلنے لگے تم کو
    اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
    میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
    چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
    تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
    میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا

Komentáře •