الوداعی نظم بخدمت فارغین علی پبلک اسکول بھٹکل ، مولانا سعود مجاہد ندوی ، آواز حافظ عمیر حافظ

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 6. 09. 2024
  • ہو مبارک پھر بپا ہے آج جشن نو بہار
    ہیں گلستاں کے مگر سب غنچہ و گل اشک بار
    گلستاں کا ذرہ ذرہ کس قدر مسرور ہے
    داغِ فرقت سے دل بلبل مگر رنجور ہے
    ہاں سناتا ہوں میں یارو داستان علم آج
    ہورہا ہے جادہ پیما کاروان علم آج
    اسجد و سیمان سب کے ہم دم و دم ساز ہیں
    صامت و رائف کو دیکھو مائلِ پرواز ہیں
    شاد ہیں پیارے عیان اور گل بداماں ہیں حسن
    خوبیِ قسمت سے ان کو مل گیا درّ عدن
    صارم و بوبکر صدیق و مظفر بالیقیں
    بن گئے ہیں آسمانِ علم کے مہرِ مبیں
    باصفا اور باحیا عثمان بن عفان ہیں
    باوفا اور خوش ادا شیبان اور حمدان ہیں
    اپنے پیارے فلزہ و سید فرازِ دیدہ ور
    دولتِ علم و عمل سے ہوگئے ہیں بہرہ ور
    خوش رہیں ہر دم شریم و ابن صادق باوفا
    اور پھلیں پھولیں عطاف و ابن طارق بھی سدا
    ایمن و صائم کی عادات و خصائل خوب ہیں
    قافلے میں ان کے اسماعیل اور یعقوب ہیں
    اے اسید نیک طینت! اے انیس خوش کلام!
    دہر میں ہو بس محبت اور خدمت اپنا کام
    ہیں حذیفہ اور صارم خوب رُو آہستہ خُو
    دوست ہیں ان کے علی شاذ ابن اختر خوش گُلُو
    بوذر و بوبکر و فواز و عطوف و ذو الفقار
    رائد و سہْل و حسن بسّام بھی ہیں سب کے یار
    حق رکھے شاداب عبداللہ بن مسعود کو
    عائز و فہد و رواس و تابش و مشہود کو
    گوہرِ نایاب اسماعیل و عبداللہ ہیں
    راز ہستی سے فوادِ باوفا آگاہ ہیں
    محی دیں، عبدالحفیظ، ابن ضیا، پیارے سہیم !
    خدمت دین و وطن کا عہد کرلو اے سدیم!
    اے ایاد ابن محمد! ابن طارق اے تہام
    ساتھ ہیں دیکھو علی ملکی، حسن ماہ تمام
    اپنے پیارے عبد وہّاب اور یحیی اور عمر
    حاملِ عزمِ جواں ہیں صاحبِ ذوقِ نظر
    رائف و سید عوان و احمد و نور و شعور
    مادر علمی سے اپنی یہ کبھی ہوں گے نہ دور
    پیکر حسن عمل ہیں ابن فائق اور ایاد
    اور رہیمِ نیک خو ہر آن ہر دم شاد باد
    نوجوانوں کو لبھاتی ہے فرنگی ساحری
    پھر زمانہ ہے گرفتار طلسم سامری
    ملّتِ اسلام کو ہم سے بڑی امید ہے
    بزم میں ہر کوئی محوِ انتظار دید ہے
    دوستو ہم کو بھلا کیا واسطہ آرام سے
    منزلیں اپنی پرے ہیں چرخ نیلی فام سے
    رزم گاہِ زیست میں بڑھنے کو ہم تیار ہیں
    حضرت الیاس اپنے قافلہ سالار ہیں
    اپنے سب استاد بے شک علم کا گنجینہ ہیں
    ہم قدم ہیں، ہم سفر ہیں، ہمدم دیرینہ ہیں
    اپنی دانش گاہ ہے گویا جہانِ آگہی
    ہم ہیں سب شمس و قمر یہ آسمانِ آگہی
    اے چمن زارِ علی ! ہم سے ہے تیرا بانکپن
    عہد ہے اپنا، کریں گے تجھ پہ قرباں جان و تن
    جہل کے ظلمت کدے میں نور عرفانی ہے تو
    رات ہے تاریک اور قندیل رہبانی ہے تو
    تو نے سکھلائے ہیں اسرارِ جہاں گیری ہمیں
    تونے دکھلایا نشانِ راہِ شبیری ہمیں
    ہے مجاہد کی دعا ہر ایک دل یاں شاد ہو
    علم و حکمت کی یہ بستی تا ابد آباد ہو

Komentáře • 14