Video není dostupné.
Omlouváme se.

دُعا ٢٢ اپریل عرس مبارک حضور قبلہ حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ خانقاہ سلطانیہ گلشن عظیم جہلم ❤️❤️❤️

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 19. 08. 2024
  • 22 اپریل 2013, بروز پیر
    بمطابق ۱۱ جمادی الثانی ۱۴۳۴ ھجری
    یوم وصال شریف
    خواجہ خواجگان، حضور قبلہ حاجی پیر صاحب
    اعلی اللہ درجتہ فی الفردوس الاعلی
    سیدنا حضرت قبلہ حاجی پیر صاحب (اعلی اللہ درجتہ فی الفردوس الاعلی) نسب کے اعتبار سے عربی النسل، قریشی الاصل اور صدیقی النسب ہیں - آپ عرب کے معزز و نامور اور مشہور و معروف قبیلہ قریش کی "صدیقی" شاخ سے رہتک (ہندوستان) میں آکر بسنے والے صدیقی خاندان کے عظیم چشم و چراغ اور عالی مرتبت فرد ہیں -
    آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا شجرہ نسب ۳۸ واسطوں سے افضل الصحابہ، ثانی اثنین، خلیفۃ الرسول، امیر المؤمنین، امام العاشقین والمتقین، الصدیق والعتیق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے چھٹے جد امجد حضرت مرہ رضی اللہ تعالی عنہ پر جا کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی کا شجرہ نسب سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے متصل ہو جاتا ہے -
    حضرت قبلہ حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے آباء و اجداد اپنے اپنے دور میں کئ با اثر اور اہم دینی و دنیوی مناصب پر فائز رہے - حضرت شیخ احمد یمنی، حضرت شیخ شمس الدین اور حضرت شیخ کمال الدین یمنی رحمۃ اللہ تعالی علیھم اجمعین یکے بعد دیگرے یمن کے حکمران رہے - حضرت شیخ معین الدین، حضرت شیخ علاء الدین، حضرت شیخ فخر الدین، حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ تعالی علیھم اجمعین اپنے اپنے وقت میں ججنیر کے قاضی رہے - مزید برآں آپ کے خاندان مبارکہ میں تواتر سے جید علمائے دین اور عالی مرتبت مشائخ طریقت ہوئے ہیں - سیدنا حضرت خواجہ عالم قدس سرہ العزیز نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا:
    "ہمارے بزرگ (خاندان میں) سلسلہ بہ سلسلہ اولیاء اللہ تھے، درمیان سے کوئ کڑی کم نہیں" -
    یہ سلسلہ آج بھی الحمدللہ جاری و ساری ہے -
    آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ عالم قدس سرہ العزیز ایک عظیم مصلح امت اور بلند پایہ شخصیت تھے - آپ کی ۸۷ سالہ حیات مبارکہ زہد و تقوی، توکل و قناعت، صبر و استقلال، اتباع سنت، پابندی صوم و صلاۃ، ذکر و فکر، تواضع و انکساری، خدمت خلق اور بے مثال بے نیازی و استغناء سے عبارت تھی -
    حضرت قبلہ حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالی علیھا، حضرت قبلہ مائ صاحبہ کلاں رحمۃ اللہ تعالی علیھا کی اجازت یافتہ تھیں اور مستورات کو سلسلہ شریفہ میں بیعت کرنے کی ذمہ داری آپ پر تھی - آپ نے کم و بیش سات سال تک مسلسل روزے رکھے - زہد و تقوی، تسلیم و رضاء، ایثار و قربانی، توکل و قناعت، حلم و درگزر اور سادگی و کفایت شعاری جیسے اخلاق حمیدہ سے متصف تھیں - انہیں اوصاف کی برکت سے آپ رحمۃ اللہ تعالی علیھا اپنی اولاد امجاد اور طبقہ نسواں کے لئے بہترین اخلاقی و روحانی راہنما ثابت ہوئیں -
    حضرت قبلہ حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ۹ صفر المظفر ۱۳۷۷ ھجری بمطابق ۴ ستمبر ۱۹۵۷ عیسوی، بدھ کے دن اس عالم رنگ و بو میں اپنی حیات بابرکات کا اولین سانس لیا - پیکر حسن و جمال کا وجود مسعود اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا -
    ۳-۴ سال کی عمر مبارکہ میں نماز پڑھنے کا آغاز فرما دیا - کم عمری سے ہی اپنی زبان مبارکہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی مکمل پاسداری فرماتے - ۵-۶ برس کی عمر میں اپنی والدہ ماجدہ اور دونوں ہمشیرگان کے ہمراہ اولین حج ادا فرمایا اور "حاجی پیر صاحب" کے لقب سے خلقت میں ملقب ہوئے - تقریبا ساڑھے نو سال کی عمر مبارکہ سے نماز تہجد اور اشراق بھی ادا کرنا شروع فرما دیں - ۱۳-۱۴ برس کی عمر میں خانقاہ سلطانیہ جہلم میں پہلا مصلی رمضان المبارک میں سنایا جہاں حضرت خواجہ عالم قدس سرہ العزیز خود سامع تھے - پندرہ سال کی عمر میں درس نظامی کے اسباق کا آغاز قاری محمد بشیر صاحب کے پاس کیا -
    یکم دسمبر ۱۹۷۶ بمطابق ۹ ذی الحجہ ۱۳۹۶ بروز بدھ آپ حضرت خواجہ عالم قدس سرہ العزیز کی خلافت و نیابت اور اجازت ارشاد سے مشرف ہوئے -
    قرآن مجید کے مدرس، حدیث شریف کے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ عالم شباب میں ہی آپ امام، خطیب اور شیخ طریقت جیسے جلیل القدر مناصب پر فائز ہو چکے تھے -
    ۱۱ جمادی الثانی ۱۴۳۴ ھجری بمطابق ۲۲ اپریل ۲۰۱۳, بروز پیر مغرب کے بعد سات بج کر انیس منٹ پر سیدنا حضرت قبلہ حاجی پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے چتر پڑی ضلع میرپور آزاد کشمیر سے واپسی پر سفر کے دوران تعمیر مسجد اور خدمت خلق کا جذبہ دل میں لئے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد فرما دی - مینارہ پلی منگلا روڈ پر ایک مشرقی سمت کیکر کے درخت کے نیچے گاڑی روکی گئ، بیٹھے بیٹھے دو تین گہرے سانس لئے، چہرہِ پُرنور آسمان کی طرف اٹھایا اور وصال بحق ہو گئے -
    دوسرے روز، ۲۳ اپریل ۲۰۱۳ بمطابق ۱۲ جمادی الثانی ۱۴۳۴ ھجری بروز منگل بعد از نماز ظہر نماز جنازہ جناب سیدنا حضرت شیخ محمد زاہد سلطانی حفظہ اللہ الکریم نے پڑھائ -
    اولین تدفین آپ کی دادی مکرمہ اور والدہ ماجدہ کے قدمین شریفین میں کی گئ - بعد ازاں ۱۷ شوال المکرم ۱۴۳۵ ھجری، ۱۴ اگست ۲۰۱۴ عیسوی کو مشرقی جانب احاطہ دربار شریف میں منتقل کیا گیا جہاں آپ کا خوبصورت مزارِ پرانوار منبعِ فیض اور فیوض و برکات ہے -
    گنجینہ معنی کی وہ تاثیر کہاں ہے
    دل جس سے ہو آسودہ وہ تصویر کہاں ہے
    ڈھونڈے ہے تجھے مسند ارشاد اب تک
    اب منبر و محراب کی توقیر کہاں ہے
    خاکہ تیرے پیکر کا کوئ کیسے تراشے
    لفظوں میں جو ڈھل جائے وہ تصویر کہاں ہے
    اسلاف کی تابندہ روایات کا پیکر
    اس جادہ پر نور کا راہ گیر کہاں ہے
    افسردہ دلوں کے لئے ممتا سے بھی بڑھ کر
    بے منزل راہی کا عناں گیر کہاں ہے
    اب تیرگی دل کا مداوا بھی ہو کیونکر
    باطن کو بھی چمکائے وہ تنویر کہاں ہے
    آنکھیں رخ زیبا کو تیرے ڈھونڈ رہی ہیں
    دیرینہ عنایات کی تعبیر کہاں ہے
    خالد کو بھی دیکھا نہیں اس روز سے ہم نے
    نہ جانے وہ افسردہ و دل گیر کہاں ہے
    (مآخذ:
    "سیرتِ سیدی فریدُ العصر"
    تصنیفِ لطیف
    استاذ العلماء، یادگارِ سلف
    جناب سیدنا حضرت مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی
    قدس سرہ العزیز)
    #khaniqahsultania #jhelum #islam

Komentáře • 8