Hamid Uddin Farahi | Amin Ahsan Islahi | Hadees or Sunnat | Fitnah inkar e Hadees | Lecture 04

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 10. 09. 2024
  • Our Website:
    www.Ahlesunnatpk.com
    ........................
    Our CZcams Channels:
    Islah Media Short Clips:
    / @islahmediashortclips
    ......
    Islah Media Complete Lectures:
    / @islahmediacompletelec...
    .........
    Ahle Sunnat Pakistan:
    / @ahlesunnatpakistan
    ....................................
    Our Facebook Pages:
    Islah Media:
    / islahfoundations
    ........
    Ahl e Sunnat Pakistan:
    / ahlesunnatpaak
    .................
    Our Twitter Accounts:
    Islah Media:
    / islahmedia4all
    ......
    Ahl e Sunnat Pakistan:
    / ahlesunnatpaak

Komentáře • 60

  • @aamirhussain6109
    @aamirhussain6109 Před 2 lety +3

    حدیث و سنت کی حجیت: مدرسۂ فراہی کے موقف کا تقابلی جائزہ
    نبی ﷺ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے ذریعے سے جو دین قرآن مجید کے علاوہ امت کو ملا ہے، اُس کے لیے حدیث و سنت کی اصطلاحات رائج ہیں۔ یہ اپنے ثبوت اور استدلال و احتجاج کے اعتبار سے دو قسموں میں منقسم ہے: ایک قسم اُن اجزا پر مشتمل ہے جو اجماع و تواتر سے ملے ہیں اور دوسری قسم اخبار آحادسے ملنے والے اجزا کو شامل ہے۔ پہلی قسم کو قطعی الثبوت اور دوسری کو ظنی الثبوت قرار دیا جاتا ہے اور ثبوت کے اِس فرق کی بنا پر اِن سے استدلال و احتجاج میں واضح فرق قائم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پہلی قسم کی حیثیت نص الٰہی کی ہے، یہ ایمان و اسلام کا جزو لازم ہے، لہٰذا یہ حجت کو قطعی طور پر قائم کرتی ہے اور اِس کے کسی جز کا انکار دین کی نص صریح کے انکار کے مترادف ہے۔ یہ علم کو بھی واجب کرتی ہے اور عمل کو بھی۔ دوسری قسم کا معاملہ یہ نہیں ہے۔نہ اسے قطعی نص کے طور پر قبول کیا جاتا ہے اورنہ اِس کے انکار کو نص الٰہی کے انکار کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔ یہ علم کو واجب نہیں کرتی، تاہم اِس کے بارے میں بالعموم ،یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ عمل کو واجب کرتی ہے۔ امام ابن عبدالبر اِس معاملے میں علمائے امت کے موقف کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    ’’سنت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جسے تمام لوگ نسل در نسل آگے منتقل کرتے ہیں ۔ اِس طریقے سے منتقل ہونے والی چیز کی حیثیت جس میں کوئی اختلاف نہ ہو، قاطع عذر حجت کی ہے۔ چنانچہ جو شخص اِن (ناقلین) کے اجماع کو تسلیم نہیں کرتا، وہ اللہ کے نصوص میں سے ایک نص کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اُس کا خون جائز ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے عادل مسلمانوں کے اجماعی موقف سے انحراف کیا ہے اور اُن کے اجماعی طریقے سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ سنت کی دوسری قسم وہ ہے جسے ’’آحاد راویوں‘‘ میں سے ثابت، ثقہ اور عادل لوگ منتقل کرتے ہیں اورجس کی روایت میں اتصال پایا جاتا ہے۔ جلیل القدر ائمۂ امت کی جماعت کے نزدیک یہ عمل کو واجب کرتی ہے، جب کہ اُن میں سے بعض کے نزدیک یہ علم اور عمل، دونوں کو واجب کرتی ہے۔‘‘ (جامع بیان العلم، دمام:دار ابن الجوزیۃ،۱۴۲۷ھ، ۱/ ۶۲۵)
    اجماع و تواتر اور اخبار آحاد کا یہ فرق سلف و خلف کے علمائے امت میں پوری طرح مسلم ہے۔ امام شافعی نے اِس فرق کو واضح کرنے کے لیے’’اخبار العامہ‘‘ اور ’’اخبار الخاصہ‘‘ کی تعبیرات اختیار کی ہیں۔ ’’اخبار العامہ‘‘ سے اُن کی مراد علم دین کا وہ حصہ ہے جسے نبی ﷺ کے بعد عامۃ المسلمین نے نسل در نسل منتقل کیا ہے ۔ ہر شخص اِس سے واقف ہے۔ نبی ﷺ سے اِس کی نسبت کے بارے میں تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ قطعی ہے اور درجۂ یقین کو پہنچا ہوا ہے ۔نہ اِس کے نقل کرنے میں غلطی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے اور نہ اِس کی تاویل و تفسیر میں کوئی غلط چیز داخل کی جا سکتی ہے۔ یہی دین ہے جس کی اتباع کا ہر شخص مکلف ہے۔’’اخبار الخاصہ‘‘ سے مراد علم دین کا وہ حصہ ہے جواخبار آحاد کے طریقے پر امت کو منتقل ہوا ہے اور جس کا تعلق فرائض کے فروعات سے ہے۔ ہر شخص اِسے جاننے اور اِس پر عمل کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ ’’الرسالہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
    علم (دین)کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم علم عام ہے۔ اِس علم سے کوئی عاقل، کوئی بالغ بے خبر نہیں رہ سکتا۔... اِس علم کی مثال پنج وقتہ نماز ہے۔ اِسی طرح اِس کی مثا ل رمضان کے روزے، اصحاب استطاعت پر بیت اللہ کے حج کی فرضیت اور اپنے اموال میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ زنا، قتل، چوری اور نشے کی حرمت بھی اِسی کی مثال ہے۔... اِس نوعیت کی چیزوں کا علم کتاب اللہ میں منصوص ہے اور مسلمانوں کے عوام میں شائع وذائع ہے۔ علم کی یہ وہ قسم ہے جسے ایک نسل کے لوگ گذشتہ نسل کے لوگوں سے حاصل کرتے اور اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ مسلمان امت اِس سارے عمل کی نسبت (بالاتفاق) رسول اللہ ﷺ کی طرف کرتی ہے۔ اِس کی روایت میں، رسول اللہ ﷺ سے اِس کی نسبت میں اور اِس کے لزوم میں مسلمانوں کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔ یہ علم تمام مسلمانوں کی مشترک میراث ہے۔ نہ اِس کے نقل میں غلطی کا کوئی امکان ہوتا ہے اور نہ اِس کی تاویل اور تفسیر میں غلط بات داخل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اِس میں اختلاف کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ ... (دوسری قسم) اُس علم پر مشتمل ہے جو اُن چیزوں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو فرائض کے فروعات میں پیش آتی ہیں یا وہ چیزیں جو احکام اور دیگر دینی چیزوں کی تخصیص کرتی ہیں۔ یہ ایسے امور ہوتے ہیں جن میں قرآن کی کوئی نص موجود نہیں ہوتی اور اس کے اکثر حصہ کے بارے میں کوئی منصوص سنت بھی نہیں ہوتی، اگر کوئی ایسی سنت ہو بھی تو وہ اخبار خاصہ کی قبیل کی ہوتی ہے نہ کہ اخبار عامہ کی طرح کی۔ جو چیز اس طرح کی ہوتی ہے، وہ تاویل بھی قبول کرتی ہے اور قیاساً بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔... یہ علم کی وہ قسم ہے جس تک عامۃ الناس رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ تمام خواص بھی اس کے مکلف نہیں ہیں، تاہم جب خاصہ میں سے کچھ لوگ اس کا اہتمام کرلیں (تو کافی ہے، البتہ) خاصہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تمام کے تمام اس سے الگ ہو جائیں۔ چنانچہ جب خواص میں سے بقدر کفایت لوگ اس کا التزام کرلیں تو باقی پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس کا التزام نہ کریں۔‘‘ (الرسالۃ، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۵ء، ص ۳۵۷۔ ۳۶۰)
    چنانچہ اجماع و قیاس کے زیر عنوان اُن کے درج ذیل اقتباس سے واضح ہے کہ اُن کے نزدیک سنت کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو مجمع علیہ ہے اور دوسری وہ جو اخبار آحاد کے طریقے پر منتقل ہوئی ہے۔ مزید برآں اُنھوں نے اِن دونوں میں استدلال کی قوت اور حجت کی نوعیت کے اعتبار سے بھی فرق کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
    ’’(اجماع وقیاس کے معاملے میں) کتاب اللہ اور اُس مجمع علیہ سنت سے استدلال کیا جائے گا جس میں اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اس اجماع و قیاس کو یہ کہیں گے کہ ہم نے اُس حق سے استدلال کیا ہے، جو ظاہر و باطن میں حق ہے۔ اور اُس سنت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، جو خبر آحاد کے طور پر آئی ہے اور وہ مجمع علیہ نہیں ہے۔ اُس کو ہم یہ کہیں گے کہ ہم نے ظاہر ی طور پر حق ہی سے حجت پکڑی ہے۔ کیونکہ جس نے روایت کی ہے اُس میں نقص ہو سکتا ہے۔‘‘ (الرسالۃ، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۵ء، ص۳۷۳)
    (جاری)

    • @reshmaumar2061
      @reshmaumar2061 Před 7 měsíci

      Or jisme ikhtalaf paya jata h apke baqol to waha quran or hadees ki taraf na lot kr apni mn mrzi ka mtlb nikal lenge🤔🤔🤔🤔🤔
      Allahumma ahfiznaa.....

  • @AliDayo-lj9gj
    @AliDayo-lj9gj Před 5 měsíci

    جزاکم

  • @AliDayo-lj9gj
    @AliDayo-lj9gj Před 5 měsíci

    Jazakumullah kaseera

  • @islamicmotivation-711

    Dil khush hugya apka vadio dekha

  • @AttaUrRehman-cp3cw
    @AttaUrRehman-cp3cw Před 7 měsíci

    عقل کا نہ ہونا یعنی فاطر العقل خداوند کریم کے احکامات سے آزاد ہے۔ اور آپ لوگ کتنی آسانی سے عقل کو پیروں تلے روند کر نکل جاتے ہو۔

  • @moosaadam9403
    @moosaadam9403 Před 2 lety

    Masha allah

  • @mohammadumar3081
    @mohammadumar3081 Před 2 lety +2

    شیخ اپنی ویڈیوز میں آپ جن لوگوں کی کتابوں سے ان کی عبارتوں کو بیان کرتے ہیں اس محولہ صفحہ کی جے پی جی لگا دیا کردیا کریں تو بہتر ہوگا۔

    • @mastmalakpet
      @mastmalakpet Před 2 lety

      Kitab ka aik safaha Na asalan jawaz hota hai kisi kay puray wajood ka...na shaqsiyat ka par yeh firqaWariyat kay mutasir Log bade hee maje se tafreqabazi kartay hain Apni TRP keliye

    • @reshmaumar2061
      @reshmaumar2061 Před 7 měsíci

      Tm kl bhi jahil the or aage bhi jahil hi rahoge
      Allah hafiz yahya k ilm m mazid taqviyat de or hme hidayat ki rah pr rakhe​@@mastmalakpet

  • @mustakeemkhalid2317
    @mustakeemkhalid2317 Před 2 lety

    MHAHSALLHA SHEIKH

  • @MrMohammedyousuf
    @MrMohammedyousuf Před 2 lety

    Jazakallahu khair shaikh
    Ek suggestion hai :
    Aapki poori video ke saath upload ho to behtar hoga, kyunki yeh to sirf audio hai.
    Pehle jo aap video banate the (mirza engineer ke khilaaf) woh andaz bahut behtar tha.

  • @DAWAHTIME1
    @DAWAHTIME1 Před 6 měsíci

    Kindly cease the circling pic. Makes you dizzy

  • @mha8252
    @mha8252 Před rokem +1

    احادیث میں بیان کردہ واقعات کو قرآن کی روشنی میں رکھ کر دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ پتا چل سکے کہ وہ واقعہ، قرآن میں بیان کردہ کس قانون کے تحت وقوع پذیر ہوا ۔ رجم کی سزا کے مطلق بھی آپ نے مولانا کی مکمل بات پیش نہیں کی ۔ رجم کی سزا کے مطلق بھی احادیث میں واقعات ہیں، تو اس کو بھی مولانا نے قرآن میں سورہ مائدہ میں بیان کردہ "فساد فی الارض" کے قانون کے تحت رکھ کر اس کی تفہیم کی ہے ۔

  • @muslimbhi2823
    @muslimbhi2823 Před 2 lety +1

    ماشاءاللہ بہت خوب جس طرح آپ نے مرزا کی دکان بند کی ہے اسی طرح ان منکرین کا بھی رد کرتے رہیں

  • @DAWAHTIME1
    @DAWAHTIME1 Před 2 lety

    Allah SWT ka wastay picture ghol ghumanay ki bajai still rakhay. yeh 1 serious lecture ha na ka bacho ki entertainment

    • @muhammadnauman6435
      @muhammadnauman6435 Před 2 lety

      pichli video bay-tahasha dafa kaha k is tarah ki harkat na karen boht bura lagta hy, lekin lagta hy Editing Team ko Shaikh ko Ghumaany men Maza aata hy. Aur Shaikh sb bhi kuch nhi kahty, shyd unhen Ghoomny men maza aata hy. Khuda k liy is tarah ki bachon wali harkat na karen.

  • @muddasirmir4943
    @muddasirmir4943 Před 2 lety +1

    تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ہو

  • @nayemrahman80
    @nayemrahman80 Před rokem

    Bukhari accepted only 7000 HADITH, so he was also inker e hadith.

  • @muhammadnauman6435
    @muhammadnauman6435 Před 2 lety

    Bhai Jaan pichli video men bhi kai dafa kaha k picture na ghumayn, magar koi asar nhi. Sochain agar Shaikh Ghulam Mustufa Zaheer Amanpuri sb ka lecture ho aur unki picture ko aisy hi ghumaya jay to aap ko kesa lagy ga.

    • @mastmalakpet
      @mastmalakpet Před 2 lety

      Usool in par lagoo nahi hota... Kyunki ki yeh log khud ko Qazi e Azam o mutlaqul anan kay darje par FAA yiz hain

    • @abuhanzalah5321
      @abuhanzalah5321 Před 2 lety

      Aap ko kya pabandi hai lagataar video dekhny ki ? isy Audio lecture ki trh sun lain, naa dekhain video. Kuch flexibility apny andr bhi paida krr lain. Agr aap ny pehly keh dea tha or unhon ny aap ki suggestion qubol nahi ki to aap ka kaam phncha dena tha bs, na keh aap bhi chipak hi gaiye hain apni baat ko ly kr. ALLAH paak aap ky liy asaaniyan paida frmaiy.

  • @owaissalafi610
    @owaissalafi610 Před 2 lety +1

    جزاک اللہ خیراً کثیرا شیخ محترم

  • @salehabdullahmuhammad8758
    @salehabdullahmuhammad8758 Před 9 měsíci

    Please eloborate your ideology, whats the difference.

  • @kishwarrehman1746
    @kishwarrehman1746 Před 7 měsíci

    Your speech is good but apki video say chaparral again ya

  • @aamirhussain6109
    @aamirhussain6109 Před 2 lety +1

    یہ علمائے امت کا عمومی موقف ہے۔ چنانچہ مولانا سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ ظاہری علما کے علاوہ کسی نے اِس نقطۂ نظر کو اختیار نہیں کیا کہ اخبار آحاد کو عقائد کا ماخذ و مبنیٰ بنایا جاسکتا ہے:
    ’’اسلام کے ایک چھوٹے سے فرقے کے سوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ غالی ظاہر یہ کے سوا کوئی اِس کا قائل نہیں کہ عقائد کا ثبوت قرآن کے علاوہ کسی اور طور سے ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عقیدہ نام ہے یقین کا، اور یقین کا ذریعہ صرف ایک ہے، اور وہ وحی اور اس وحی کاتواتر ہے۔ اس لیے عقائد کا مبنیٰ صرف قرآن پاک یا احادیثِ متواترہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ حدیث متواترہ کا مطلق وجود نہیں، یا ایک دو سے زیادہ نہیں۔ ایسی حالت میں عام احادیث عقائد کا مبنیٰ نہیں قرار پاسکتی ہیں۔ عموماً احادیث روایت آحاد ہیں اور اِن کا ایک حصہ مستفیض ہے، یعنی صحابہ کے بعد اِن کے راویوں کی کثرت ہوئی ہے۔ اِس لیے یہ روایتیں صرف قرآن پاک کی آیات کی تائید میں کام آسکتی ہیں، مستقلاً اِن سے عقائد کا ثبوت حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ اشراق،دسمبر ۱۹۹۶ء، ص۳۲)
    یہی مؤقف ہے جسے دور حاضر کے بعض جلیل القدر اہل علم سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا سرفراز خان صفدر نے سلف کے موقف کے طور پر اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودی نے امام سرخسی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ تواتر ہی وہ ذریعہ ہے جس سے یقینی علم حاصل ہوتا ہے، لہٰذا کفر و ایمان کا مدار اِسی ذریعے سے حاصل ہونے والے علم پر کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اخبار آحاد کا تعلق ہے تو اِنھیں ایمانیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
    ’’...مدارِ کفر وایمان اگرہو سکتے ہیں تو صرف وہ امور ہو سکتے ہیں جو کسی یقینی ذریعۂ علم سے ہم کو نبی ﷺ سے پہنچے ہوں۔ اور وہ ذریعہ یا تو قرآن ہے یا پھر نقل متواتر، جس کی شرائط امام سرخسی نے واضح طور پر بیان کر دی ہیں۔ باقی جو چیزیں اخبار آحاد یا روایات مشہورہ سے نقل ہوتی ہیں، وہ اپنی اپنی دلیل کی قوت کے مطابق اہمیت رکھتی ہیں۔ مگر ان میں سے کسی کو بھی یہ اہمیت نہیں ہے کہ اسے ایمانیات میں داخل کر دیا جائے۔ اور اس کے نہ ماننے والے کو کافر ٹھہرایا جائے۔‘‘ (رسائل ومسائل، لاہور: اسلامک پبلیکیشنز، ۳/ ۹۷)
    مولانا ظفر احمد عثمانی نے بیان کیا ہے کہ اخبار آحاد پر مبنی احادیث کو ضروریات دین میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ لکھتے ہیں:
    ”نبی ﷺ کی وہ تمام احادیث جنہیں صرف ایک راوی کے علاوہ کوئی دوسرانہ جانتا ہو تو وہ ضروریات دین میں سے نہیں ہیں، کیونکہ ضروریات کو آںحضرت ﷺ نے بطریق عموم تبلیغ فرمایا ہے نہ کہ مخصوص طریقہ پر۔‘‘ (قواعد فی علوم الحدیث، ص۴۵۴)
    مولانا سرفراز خان صفدر امام تفتازانی کی ’’شرح عقائد‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عقائد کے معاملے میں خبر واحد پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا:
    ’’...اصولی طورپر حدیث کی دو قسمیں ہیں خبر متواتر اور خبر واحد۔ خبر واحد اگرچہ ظن کا فائدہ دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عقائد میں اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ عقیدہ کی بنیاد قطعی ادلہ پر ہے جو قرآن کریم اور خبر متواتر اور اجماع ہیں۔ چنانچہ علامہ مسعود بن عمر الملقب بسعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں کہ خبر واحد ان تمام شرائط پر مشتمل ہونے کے باوجود بھی جو اصول فقہ میں بیان کی گئی ہیں ظن کا فائدہ دیتی ہے اور اعتقادیات کے باب میں ظن کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔‘‘ (شوق حدیث، گوجرانوالہ: مکتبہ صفدریہ، ۲۰۱۲ء،۱۴۳)
    اجماع و تواتر اور اخبار آحاد کے بارے میں مدرسۂ فراہی کے علما بھی اسی نقطۂ نظر کے قائل ہیں۔ چنانچہ وہ اجماع و تواتر سے ملنے والے مشمولات حدیث و سنت کو قطعی الثبوت قرار دیتے اور دین کے مستقل بالذات اجزا کے طور پر قبول کرتے ہیں، جب کہ اخبار آحاد سے ملنے والے مشمولات کوظنی الثبوت تصور کرتے اور انھیں مستقل بالذات اجزا کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ اسی بنا پر وہ اِن دو مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والے دین کی نوعیت اور مقام و مرتبے میں فرق قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا حمید الدین فراہی حدیث کو دین اور تفسیر کے خبری ماخذوں میں شمار کرتے اور اصل کے بجائے فرع کے طور پر قبول کرتے ہیں۔’’ مجموعۂ تفاسیر فراہی‘‘ میں ان کے درج ذیل الفاظ سے یہی بات مفہوم ہوتی ہے:
    ’’...اگر احادیث ، تاریخ اور قدیم صحیفوں میں ظن اور شبہ کو دخل نہ ہوتا تو ہم ان کو فرع کے درجہ میں نہ رکھتے، بلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرار پاتی اور سب بلا اختلاف ایک دوسرے کی تائید کرتے۔‘‘ (مجموعۂ تفاسیر فراہی، (مترجم: مولانا اصلاحی)، لاہور: فاران فاؤنڈیشن، ۲۰۰۸ء، ص۳۷)
    بعینہٖ یہی موقف مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے۔ اُن کے نزدیک سنت نہ خبر واحد سے ثابت ہوتی ہے اور نہ قولی تواتر سے، بلکہ یہ عملی تواتر سے ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے، کیونکہ وہ ظنی ہیں ۔سنت اِن کے مقابلے میں قطعی ہے۔ ’’مبادیِ تدبر حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:
    ’’سنت کی بنیاد احادیث پر نہیں ہے، جن میں صدق وکذب، دونوں کا احتمال ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر معلوم ہوا، بلکہ امت کے عملی تواتر پر ہے۔... جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیار کیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا، بلکہ یہ چیزیں نبی ﷺ نے اختیار فرمائیں۔ آپ سے صحابہ کرامؓ نے، ان سے تابعینؒ پھر تبع تابعینؒ نے سیکھا۔ اسی طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے۔ اگر روایات کے ریکارڈ میں ان کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہر حال امت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی۔ اگر کسی معاملے میں اخبارِ آحاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی۔ اگر توجیہ نہیں ہو سکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا، اس لیے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت، ان کے بالمقابل قطعی ہے۔‘‘ (مبادیِ تدبر حدیث، لاہور: فاران فاؤنڈیشن، ۲۰۰۸ء، ص۱۹۔۲۴)

  • @Naveen133
    @Naveen133 Před rokem

    Maulvi sahab Jiziya Kon se mulk me liye ja rahe he aaj ke waqt me...Jo jiziye ko mokif kiya jayega Isa alaihissallam ke zariye..???

    • @mirafzal2019
      @mirafzal2019 Před 7 měsíci

      Sir Syed ahmad Khan was misguided person Ahmadiyya community out of Islam Ahmadiyya community is kafir wrong doers

  • @user-ex7go5ym4q
    @user-ex7go5ym4q Před 9 měsíci

    Aap k firqa say Nahi Hain Islay yah galat hai

  • @islamicmotivation-711

    Abulala maududi pr bhi vadio banauoo

  • @mastmalakpet
    @mastmalakpet Před 2 lety

    labels par brands par personalities par kab tak...

  • @emskhan
    @emskhan Před 4 měsíci +1

    مولی صاحب، وڈیو میں آپ گول گول کیوں گھوم رہے ہیں؟ دیکھنے میں بہت خراب لگتا ہے۔ لیکن آپ کی باتیں سن کر لگا کہ آپ کا علمی معیار اور لیول اسی قابل ہے۔ آپ کو چاہئے کہ فراہی اور اصلاحی کے کام پر بات کرنے کے بجائے آپ ابھی یہ سیکھیں کہ ایک عالم دین کو کس طرح نظر آنا چاہیے۔ آپ جس طرح گول گول چکر لگارہے ہیں اور اُلٹا لٹک رہے ہیں یہ مداریوں کے لئے تو ٹھیک ہے،کوئی بھی شریف، مہذب آدمی پسند نہیں کرے گا۔

  • @mianzarrar3796
    @mianzarrar3796 Před rokem +1

    Fazool khaniya jhoot per mbni.😅😂

  • @munawarchohan4529
    @munawarchohan4529 Před rokem

    غامدی صاحب 🤲🤲🤲👍👍👍🕋🕋🕋👉💙🧡💚🕋🕋🕋👉

  • @syeddadmohammed7419
    @syeddadmohammed7419 Před 2 lety

    MashaAllah 👍.
    JazakaAllahu khairan kaseera.

  • @muhammadsharif8301
    @muhammadsharif8301 Před rokem

    Please see this video in link and find the truth

  • @rajag1385
    @rajag1385 Před 2 lety +1

    Ap bhot jooth bolta o

  • @aamirhussain6109
    @aamirhussain6109 Před 2 lety

    امام ابوزہرہ نے امام شافعی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ مشمولات حدیث و سنت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: وہ حصہ جو متواتر ہے، اُسے وہ سنت ثابتہ قرار دیتے اور حجت کے اعتبار سے قرآن مجید کے مساوی سمجھتے ہیں اور وہ حصہ جو اخبار آحاد پر مبنی ہے، اُسے قرآن کے مساوی قرار نہیں دیتے۔ وہ اُس کے منکر کو دائرۂ اسلام سے خارج بھی نہیں سمجھتے۔ ابوزہرہ لکھتے ہیں:
    ’’امام شافعی قرآن کے مرتبہ میں جس سنت کو رکھتے ہیں وہ مجموعۂ سنت ہے، ہر وہ حدیث جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہو، خواہ کسی طریق سے ہو، قطعی الثبوت آیات متواترہ کے مقابلہ میں نہیں رکھی جاسکتی۔ اگر احادیث آحاد اپنے اپنے مرتبے میں احادیث متواترہ اور مستفیضہ مشہورہ کے برابر نہیں ہیں تو وہ قطعی الثبوت آیات قرآنی کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ امام شافعی نے اس بات پر متنبہ کیا ہے اور مرتبۂ قرآنی میں جس سنت کو رکھا ہے، وہ سنت ثابتہ ہے، جیسا کہ اُنھوں نے کہا ہے کہ ادلۂ احکام میں پہلا درجہ کتاب اللہ کا اور اُس سنت کا ہے جو ثابت شدہ ہے، گویا شافعی نے جو حکم لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن اور سنت ثابتہ کا ازروے حکم درجہ ایک ہے ۔‘‘ (امام شافعی عہد اور حیات، لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، ص۳۴۹)
    تواتر اور آحاد کے اسی فرق کی بنا پر امام ابن حزم بھی سنت کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک قسم ’نقل الکافہ عن الکافہ‘ پر اور دوسری اخبار آحاد پر مبنی ہے۔ ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں لکھتے ہیں:
    ’’اخبار کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم خبرمتواترہے جسے تمام لوگ تمام لوگوں سے اس طرح منتقل کرتے ہیں کہ ان کا سلسلہ نبی ﷺ تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسی خبر کے قابل احتجاج ہونے اور قطعی طور پر حق ہونے کے حوالے سے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ اخبار متواترہ ہی سے ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن وہ کتاب ہے جسے محمد ﷺ لائے۔ انھی سے آپ کی رسالت کا اثبات ہوا۔ انھی سے نمازوں کے رکوع اور کل نمازوں کی تعداد اور بہت سے احکام زکوٰۃ معلوم ہوئے۔ اور ایسے بہت سے احکام معلوم ہوئے جو تفصیلاً قرآن میں مذکور نہیں۔... دوسری قسم اُن اخبار پر مشتمل ہے جنھیں (تمام لوگ بحیثیت جماعت نہیں، بلکہ) ایک فرددوسرے فرد کو منتقل کرتا ہے۔‘‘ (الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۴ء، ص۱۲۳، ۱۲۷)
    اخبار متواترہ اور اخبار آحاد کا یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر علمائے امت کی اکثریت اِس بات کی قائل ہے کہ خبرواحد سے ملنے والا علم قرآن مجید اور سنت متواترہ کے مرتبے کا حامل نہیں ہے۔ چنانچہ نہ وہ علم و عقیدہ کو واجب کرتا ہے اور نہ مستقل بالذات احکام کا ماخذ ہے ۔ امام ابن حزم نے احناف، شوافع اور جمہور مالکیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اِن مکاتب فکر کا خبر واحد کو واجب العلم نہ ماننے پر اتفاق ہے۔ لکھتے ہیں:
    ’’حنفیوں، شافعیوں اور جمہور مالکیوں اور تمام معتزلہ اور خوارج کی رائے یہ ہے کہ خبر واحد علم کو واجب نہیں کرتی اور اِس بات پر اِن سب کا اتفاق ہے۔‘‘ (الاحکام فی اصول الاحکام، بیروت: دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۴ء، ۱/ ۱۳۸)
    ابوزہرہ نے بیان کیا ہے کہ امام شافعی اخبار آحاد کے منکر کو اِسی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کرتے، کیونکہ اِن سے حاصل ہونے والا علم قطعی نہ ہونے کی وجہ سے عقیدے کو ثابت نہیں کرتا، جب کہ عقائد کو قطعی الثبوت بھی ہونا چاہیے اور قطعی الدلالۃ بھی۔ لکھتے ہیں:
    ’’امام شافعی نے علم سنت کو مرتبۂ کتاب میں استنباط احکام فروعی کے سلسلہ میں رکھا ہے نہ کہ اثبات عقائد میں اسے وہی حیثیت دی ہے، کیونکہ جو شخص سنت کی کسی چیز کا انکار کرتا ہے، وہ ویسا منکر نہیں ہے جو صریح احکام قرآنی کا انکار کرتا ہو جو تاویل سے ماورا ہیں۔ کیونکہ جو قرآن کی لائی ہوئی کسی چیز کا انکاری ہے، وہ مرتد ہے، خارج از اسلام ہے، لیکن جو سنت کی احادیث آحاد کی کسی چیز سے منکر ہے، وہ خارج از اسلام نہیں ہے، کیونکہ عقائد کو اپنے ثبوت میں قطعی الثبوت والدلالت ہونا چاہیے اور اخبار آحاد قطعی السند نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کا منکر خارج از اسلام نہیں قرار دیا جا سکتا۔‘‘ (الإمام الشافعی حیاتہ و عصرہ، بیروت: ص۱۶۹)
    امام سمرقندی نے ’’میزان الاصول‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اُس خبر واحد کو قبول ہی نہیں کیا جائے گا جو کسی عقیدے کو ثابت کر رہی ہو:
    ’’خبر واحد کسی اسلامی عقیدہ کو ثابت نہیں کر سکتی ہے، کیونکہ یہ خبر موجب عمل تو ہے مگر موجب علم نہیں۔ اور اِس سے علم قطعی حاصل نہیں ہوتا۔ اِس لیے اگر اِس خبر سے کوئی عقیدہ ثابت ہورہا ہو تو اس خبر کو رد کر دیا جائے گا۔‘‘ (میزان الاصول فی نتائج المعقول، ص۴۳۴)
    (جاری)

    • @sharaizshafiq8365
      @sharaizshafiq8365 Před 2 lety

      بھائی جان خبر واحد کی بحث کو چھوڑیں جو احادیث تواتر کے ساتھ آئی ہیں اور سند کے لحاظ سے بھی صحیح ہیں یہ لوگ تو ان کو بھی نہیں مانتے ۔جسیے زانی کو رجم کرنا، رفع عیسی و نزول عیسی ، وغیرہ

    • @aamirhussain6109
      @aamirhussain6109 Před rokem

      میرے نزدیک سیدنا مسیح علیہ السلام کے دوبارہ تشریف لانے کے مسںٔلے کا دین کے اصولی تصورات اور عقائد سے کوئی تعلق نہیں اور نہ روایات کی رو سے نبی کریم ﷺ نے اسے اس حیثیت سے بیان فرمایا ہے۔ عقیدے کا درجہ صرف اس چیز کو دیا جاسکتا ہے جسے نبی ﷺ نے اس حیثیت سے بیان فرمایا ہو اور پھر اسی درجے میں امت کو اس کی تبلیغ کا اہتمام بھی کیا ہو، جبکہ نزولِ مسیح کے مسںٔلے کی بدیہی طور پر یہ نوعیت نہیں ہے۔ روایات کی رو سے نبی ﷺ نے اسے بہت سی دوسری پیش گوئیوں کی طرح قرب قیامت کے واقعات کے ضمن میں ایک واقعے کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن کسی واجب الاتباع دینی عقیدے کی حیثیت سے اس کا ابلاغ نہیں کیا۔ چنانچہ حدیث کے بہت سے مجموعوں میں بھی اس روایت کو ایمانیات کے ضمن میں نہیں، بلکہ ان ابواب میں درج کیا گیا ہے جہاں ماضی اور مستقبل کے بہت سے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر امام بخاری نے یہ روایت کتاب الایمان کے بجائے کتاب الانبیاء میں مختلف انبیاء کے واقعات کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح امام نسائی نے السنن الکبریٰ میں نزول مسیح کی روایت غزوہ ہند کے باب (رقم۴۳۸۴) اور اس کے علاوہ سورۂ نمل، سورۂ الدخان اور سورۂ مزمل کی بعض آیات کی تفسیر کے تحت نقل کیا ہے۔(رقم۱۱۳۸۰، ۱۱۴۸۲، ۱۱۶۲۹) امام ابن ماجہ نے بھی یہ روایت فتن اور اشراط الساعۃ کے ضمن میں نقل کی ہے۔(رقم۴۰۷۵)
      جہاں تک اِس حدیث کے متواتر ہونے کا تعلق ہے تو تحقیق سے یہ دعویٰ بھی درست ثابت نہیں ہوتا۔ صدر اول یعنی صحابہ وتابعین کے دور میں اس بات کا ذکر اخبار آحاد ہی کے طریقے پر ہوتا رہا ہے، جبکہ انھیں ”متواتر“ شمار کرنے کا زاویہ نگاہ بہت بعد میں اس وقت پیدا ہوا جب احادیث کے مجموعے مدون ہوچکے تھے اور مختلف مآخذ سے ہر طرح کی روایات جمع کرکے تعداد کی کثرت کے لحاظ سے ان کے ”متواتر“ ہونے کا تاثر پیدا کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ جیسے جلیل القدر صحابی سرے سے اس سے واقف نہیں تھے۔ چنانچہ ایک روایت میں انہوں نے دجال کے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ:
      ’ویزعم اھل الکتاب ان المسیح ینزل فیقتله‘. (مستدرک الحاکم رقم۸۵۱۹، المعجم الکبیر للطبرانی رقم۹۷۶۱، مصنف ابن ابی شیبہ رقم۳۷۶۳۷)
      ”اہل کتاب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے۔“
      گویا انہیں نبی ﷺ کی نسبت سے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح سیدنا مغیرہ ابن شعبہؓ نے بھی ایک موقع پر اس بات کا ذکر ایسے انداز میں کیا جس سے مذکورہ بات کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت عامر شعبی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ابن شعبہؓ کی مجلس میں نبی ﷺ کے لیے ’خاتم الانبیاء لانبی بعدہ‘ کے الفاظ کہے تو مغیرہؓ نے کہا کہ:
      ’حسبک اذا قلت خاتم الانبیاء، فانا کنا نحدث ان عیسیٰ خارج فان ھو خرج فقد کان قبله وبعدہ.‘ (مصنف ابن شیبہ رقم۲۷۱۸۷، المعجم الکبیر للطبرانی۴۱۴/۲۰)
      ”تمہیں یہی کافی تھا کہ خاتم الانبیاء کہہ دیتے، کیونکہ ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام بھی آنے والے ہیں۔ سو اگر وہ آگئے تو وہ نبی ﷺ سے پہلے بھی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی۔“
      ظاہر ہے کہ ایک قطعی الثبوت عقیدہ کے ذکر کے لیے یہ اسلوب کسی طرح موزوں نہیں۔
      امام تفتازانی نے علم کلام پر اپنی مشہور کتاب ’شرح المقاصد‘ میں نزول عیسیٰ کی روایات کو اخبار احاد میں شمار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”وقد وردت فی ھذا الباب اخبار صحاح وان کانت آحادا.“ (۳۰۷/۲)
      جہاں تک اس ضمن میں روایات کا تعلق ہے تو وہ محدثین کے میعار کے مطابق سند کے اعتبار سے صحیح ہیں اور اسی لیے اہل علم نے عام طور پر انھیں قبول کیا ہے۔ غامدی صاحب کی تنقید یہ ہے کہ ان کے فہم کے مطابق یہ روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں۔ اس کے قراںٔن انھوں نے ’میزان‘ میں بیان کردیے ہیں۔ ان کی اس رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، تاہم علمی و اصولی طور پر ایک صاحبِ علم کا یہ حق ہے کہ اگر وہ دیانتداری کے سے کچھ روایات کو قرآن کے خلاف سمجھتا ہے تو انھیں قبول نہ کرے۔ خود صحابہ کرام کے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ سیدنا عمرؓ اور سیدہ عائشہؓ جیسے اکابر اہل علم نے بعض دوسرے صحابہ کی بیان کردہ روایات کو، جو انھوں نے براہ راست نبی ﷺ سے سماع کی تصریح کے ساتھ بیان کی تھیں، اس وجہ سے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ ان کے فہم کے مطابق وہ قرآن سے ٹکراتی تھیں۔ (براھین از علامہ عمار خان ناصر ص۷۰۹، ۷۱۰، ۷۱۱)

  • @rizwankaleembutt3272
    @rizwankaleembutt3272 Před rokem

    Khata tu khata farahi shab

  • @mastmalakpet
    @mastmalakpet Před 2 lety

    Aap gol gol Kaa hey phirre ...aur kab tak firqabazi?

  • @tasaduqahamadmir8209
    @tasaduqahamadmir8209 Před 29 dny

    Itna b jhoot mat bolo bai hum un ko sunte hai,

  • @user-ex7go5ym4q
    @user-ex7go5ym4q Před 9 měsíci

    Ghadahy ho app jis par kitabien lady Howie hain

  • @mha8252
    @mha8252 Před rokem

    یہ باتیں صحیح نہیں ہیں جو آپ بیان کر رہے ہیں ، اور نہ یہ تنقید کا طریقہ درست ہے ۔ آگر آپ نے کسی کے فکر پر تنقید کرنی ہے تو کم از کم اس کو پہلے درست انداز سے پیش تو کریں جس طرح کہ وہ ہے، آپ نے تو شروع سے ہی فکر کی بجائے شخصیات کو نفسیاتی تجزیہ شروع کر دیا، آپ شخصیات کی بجائے اس فکر کو قرآن و سنت کے نصوص سے رد کریں۔ بہت سی صحیح باتوں کو غلط باتوں خے ساتھ ملا کر پیش کرنے اور منفی labels لگانے سے صرف آپ کی نفسیاتی تشفی تو یو جائے گی مگر یہ سب تہمت کے زمرے میں آئیں گی۔

    • @islamicmotivation-711
      @islamicmotivation-711 Před rokem

      سب تو دلیل سے بات کررہے تم دلیل دو کیا غلط بیان کیا

    • @mha8252
      @mha8252 Před rokem

      احادیث میں بیان کردہ واقعات کو قرآن کی روشنی میں رکھ کر دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ پتا چل سکے کہ وہ واقعہ، قرآن میں بیان کردہ کس قانون کے تحت وقوع پذیر ہوا ۔ رجم کی سزا کے مطلق بھی آپ نے مولانا کی مکمل بات پیش نہیں کی ۔ رجم کی سزا کے مطلق بھی احادیث میں واقعات ہیں، تو اس کو بھی مولانا نے قرآن میں سورہ مائدہ میں بیان کردہ "فساد فی الارض" کے قانون کے تحت رکھ کر اس کی تفہیم کی ہے ۔

  • @draltafkhan9680
    @draltafkhan9680 Před rokem +1

    انجینیر پر حملہ کے لیے اکسانے والا اور پلاننگ کرنے والا ملا

  • @modkashif100
    @modkashif100 Před 5 měsíci

    bhai fitna tu aap hain

  • @javeedasadshaikh5570
    @javeedasadshaikh5570 Před rokem

    کیوں سطحی باتیں کرتے ہیں

  • @ahmedganii
    @ahmedganii Před 2 lety

    Mufti Saab, Aap ne dono mufassir par buhtan bandha hai, Allah Se Tauba kijiye,

  • @muhammadtariq7685
    @muhammadtariq7685 Před 2 lety

    یزیدی اھل حدیثوں ۔ اھل بیت فضیلت جو حدیثیں ھیں تم بھی تو اس انکار کرتے ہوں۔یزیدیت دوسرے فرقے کا نام ھے۔منکرین حدیث۔

    • @DAWAHTIME1
      @DAWAHTIME1 Před 2 lety

      ji ji pitman shia rafziyo na kai 100 hadith ghar rakhi ha , kia un ki baat kar rahay ho? agar wohi ha to phir hum wohi pesh kartay ha or tum sabit kar do keh yeh sahih ha , or Ravi tumhay bhi qabul ha , kon ravi ha.....

    • @irfanshukarullah5318
      @irfanshukarullah5318 Před rokem

      :@@DAWAHTIME1 Dont say that they don't believe Quran