بنوری کا یہ مرکز ہے گلستان ہمارا انوار مصطفی ہے یہ آشیاں ہمارا

Sdílet
Vložit
  • čas přidán 22. 07. 2020
  • جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے بارے ایک ایسا نظم جو آپ کو بار بار سننے پر مجبور کرے ۔
    ہمارے چینل کو سبسکرائب کرنا نہ بھولیں۔
    #بنوری_ٹاؤن
    جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ایک درسگاہ ہی نہیں, ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کانام ہے,ایک مرکز بلکہ ایک مکتبہ فکر کا عنوان ہے- بچپن سے بنوری ٹاؤن کے نام کے ساتھ عقیدت،محبت اور وابستگی کا ایک انوکھا سارشتہ استوار ہوا ہے جس رشتے اور وابستگی کو کبھی الفاظ کا جامہ پہنا سکا نہ کبھی تعبیردے سکا- مادر علمی کی اصطلاح توہمارے ہاں معروف ہے اگر مادر علمی کی بھی کوئی مادر ہوا کرے....مادر علمی کاکوئی منبع اور سرچشمہ کہلاتا ہو......مادر علمی سے اوپر کی کوئی نسبت ہواکرے تو وہ ہمارے لیے جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہے کیونکہ ہماری مادر علمی جامعہ فریدیہ بنوری ٹاون کا ہی فیضان ہے اور ہمارے اکثر محبوب اساتذہ ومربی اسی ادارے کے فیض یافتگان ہیں-جب جب کراچی آنا ہوتاہے،کراچی کے جس حصے میں بھی ہوں بنوری ٹاؤن اپنی طرف کھینچتاہے۔ایسی کشش،ایسی اپنائیت،ایساسکون کہ نہ پوچھیے میرے بس میں ہو تو ہر شام بنوری ٹاؤن کی مسجد اور مسجد کے جنوبی حوض کے کنارےجاکر بیٹھ جایا کروںاورجامعہ میں چلتی پھرتی بہاروں اور انوارات کے نظارے کیا کروں-جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں اورکچھ نہ ہوتا صرف ایک مسجد ہی ہوتی تو بھی ہم ایسے تشنگان علوم اور متلاشیاں سکون کے لیے بہت تھی ……نورانی چہروں کی چہل پہل.....جھوم جھوم کرقران پڑھتے معصوم بچے......مسجد کے ہر حصے سے بلند ہوتی قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں.....خوشگوار ہوائیں...شام ہوتے ہی ٹھنڈک اور نمی کا موسم میں اترنا ایسے میں کوئ بندہ بنوری ٹاؤن کی مسجد,مسجد کی راہداریوں,صحن یاحوض کے کنارےبیٹھا ہوتو یہ ٹھنڈک, یہ نمی,یہ ہوا دل میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور سب صدائیں کانوں میں رس گھولتی ہیں خاص طورپر بنوری ٹاؤن کی مسجد کے بلند وبالا میناروں سے جب اذان کی آواز گونجتی ہے تو انسان مسحور ہوجاتا ہے اور پھر نماز تو انسان پر عجیب ہی کیفیت طاری کرتی ہے- بنوری ٹاؤن کے ایک گوشے میں چار قبریں ہیں.....یہ چار قبریں نہیں بلکہ چار عہد ہیں علامہ سید محمد یوسف بنوری,مفتی احمدالرحمن،مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار تین زمانوں کا عنوان ہیں۔ایک ایک کا قصہ لے کر بیٹھیں تو زمانے بیت جائیں, وہ جو کہتےہیں ناں کہ فلاں اپنی ذات میں انجمن تھا۔یہ تینوں ہستیاں اپنی ذات میں واقعی انجمن تھیں.....پورے پورے عہد کانام....اپنی اپنی جگہ ایک تحریک....اپنی اپنی حیثیت سے جگمگ جگمگ کرتی کہکشائیں.....قوس قزح کی طرح بکھرے رنگ.....ان تینوں ہستیوں اور ان کے عہد پر لکھنا چاہیں تو بات بہت دور نکل جائے گی....کاش کوئی مرد خدا ہمت کرے اور بنوری ٹاؤن اور اس کے باغبانوں کے گرد پھیلی تاریخ قلمبند کرے اور پھر بنوری ٹاؤن کے فیضان کو سمیٹنے کی سعی کرے کہ اس درسگاہ کے خوشہ چینوں کو رب ذوالجلال نے کس مقبولیت اور قبولیت سے نوازا ہے ……اب کی بار گلشن بنوری کے مہکتے ہوئے پھول برادرمکرم صاحبزادہ مولانا طلحہ رحمانی صاحب کی معیت میں بنوری ٹاؤن کو پھر سے دیکھا-مولانا طلحہ رحمانی حضرت بنوری کے نواسے اور حضرت مفتی احمد الرحمن کے بیٹے ہیں ان دنوں وفاق المدارس کے میڈیا کا محاذ سنبھالے ہوئے ہیں-برادر گرامی حاجی سلیم صاحب اور عزیزم اعجازساتھ تھے،سلیم بھائ اسلام آباد سے روانہ ہوتے ہوئے اور سفر میں بارہا بنوری ٹاؤن کو دیکھنے کی تمنا کرتے آئے- طلحہ بھائی سے ان کی بے تابی کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بنوری ٹاؤن پھر سے دکھایا اور حق ادا کر دیا بارہا حاضری کے باوجود یوں لگ رہا تھا جیسے آج بنوری ٹاون پہلی حاضری ہے-اللہ اللہ کیا دنیا ہے ……کیا جہاں ہے؟.....اس کے پہلوسے گزرجانے والے کیا جانیں کہ یہاں کیا کیا رنگ ہیں..... پہلو سے گزرنے جانے والوں کی بات نہ کیجیے میرے جیسے بہت سارے بنوری ٹاؤن کی مسجد میں نماز پڑھ کر ہی لوٹ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ہم بنوری ٹاون سے ہو آئے بلکہ وہ بھی جنہوں نے برسوں اس درسگاہ میں پڑھا سوچتا ہوں انہیں بھی پھر سے لوٹ کرآنا چاہیے,بار بار آنا چاہیےاور کچھ وقت بنوری ٹاوٓ ن میں ضرور رہنا چاہیے....پھر سے بنوری ٹاؤن کو دیکھنا چاہیئے.....پھر سے بنوری ٹاؤن کو سمجھنا چاہیئے.....پھر سے بنوری ٹاؤن کو پڑھنا چاہیئے....اگر کسی کے پاس آنے اور رہنے کی فرصت نہ ہو تو بینات کے خصوصی نمبرز لے لے اور انہیں پڑھا کرے۔ گزشتہ برس سفرحرمین کے دوران برادر کبیر پیر عزیزالرحمن رحمانی نے اپنے والد گرامی حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن صاحب کے حوالے سے چھپنے والا خاص نمبر عنائت فرمایا,اسے جوں جوں پڑھتا گیاحیرت میں ڈوبتا چلا گیا,پچھتاوا تھا کہ پہلے یہ سب کیوں نہ پڑھا? حضرت بنوری کو تو پہلے سے پڑھ رکھا تھا لیکن حضرت مفتی صاحب کے بارے میں حیرت واستعجاب کے بہت سے دروا ہوئے۔سوشل میڈیا کی چکا چوند سے متاثر ہوجانے والے, بدلتے وقت کے میلوں میں اپنے نظریات گم کر آنے والےاور آدھے تیتر آدھے بٹیر نما مدارس کے بھگوڑوں کے بھاشن سن سن کراپنے اکابر کی ناقدری کے مرض میں مبتلا ہو جانے والے نو وارد فضلاء مدارس دینیہ کے ہر مرض کا "تریاق"یہ ہے کہ انہیں اپنے اکابر کی سوانح اور کردار وخدمات سے روشناس کروایاجائے,انہیں بتایا جائے کہ حضرت بنوری کون تھے اور بنوری ٹاون سے لے کر دارالعلوم دیوبند تک اور دارالعلوم دیوبند سے لے کر صفہ کے چبوترے تک کیسے کیسے چراغ جل رہے ہیں کیسے کیسے آفتاب و مہتاب روشنیاں بانٹتے رہے ہیں اور کیسے کیسے ستارے جگمگ جگمگ کرتے ہیں-مولاناطلحہ رحمانی نے بنوری ٹاؤن کی پانچ لائبریریوں کے بارے میں بتایا, ان کا دورہ کروایا،حضرت مولاناعبدالحلیم چشتی کی ایسی انمول کتابیں جن کا کتابوں کے قدر دانوں نے کروڑوں روپے ریٹ لگایا تھا پتہ نہیں حضرت چشتی صاحب کے دل میں کیا آئ کہ سب بنوری ٹاؤن کے مکتبے کو دے دیں، ٹھٹھ سندھ سے کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہاتھ لگا,مفتی نظام الدین شامزئی کی کتابیں ان کے سعادت مند بیٹوں نے امت کی امانت سمجھ کر بنوری ٹاون کو ہدیہ کردیں

Komentáře •