Akhtar Usman | Saiwa Art Society | اختر عثمان | Urdu Poetry | Shayari
Vložit
- čas přidán 12. 09. 2024
- Follow Us On
Instagram - ...
Facebook - www.facebook.c...
DISCLAIMER: This Channel DOES NOT Promote or encourage Any illegal activities, all contents provided by This Channel is meant for EDUCATIONAL PURPOSE only.
Copyright Disclaimer Under Section 107 of the Copyright Act 1976, allowance is made for "fair use" for purposes such as criticism, comment, news reporting, teaching, scholarship, and research. Fair use is a use permitted by copyright.
کیا خوبصورت کلام ہے۔ کیا کہنے
Kya kehnay
Classic great of the fun. Dedicated life to this art
شاعر سرشار حق
میرے مالک تیرے بندے بھی عجب ہوتے ہیں
گرتے پڑتے ہیں سنبھلتے ہیں یہ گر جاتے ہیں
صبر کرتے ہیں تو ایسا یہ گماں ہوتا ہے
جیسے انسان نہیں پتھر سے بنے ہوتے ہیں
زکر کرتے ہیں یہ دل میں دھڑکن کی طرح
دل ہی دل میں یہ رب کو ہی صدا دیتے ہیں
کشف ہوتا بھی ہو پھر بھی جھکے رہتے ہیں
اپنے مطلوب کی قربت میں سدا رہتے ہیں
طلبے دنیا ہو مردار کی خواہش جیسے
طلبے دنیا سے یہ بے زار پہت رہتے ہیں
Zabardast
اختر عثمان صاحب آپ سے آج شناسائی ہوی آپ کا کلام اور انداز بہت اچھے لگے
بہت بڑے شاعر❤
دور رواں کے سب سے وزنی شاعر
دکھ یہ ہے کہ بہت سے چھچھورے شعراء لاکھوں میں بلائے جاتے ہیں ، اور سر عثمان اختر جیسے شعرا مروت میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں
میں پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ آج کوئی دوجا شاعر حضرت کے ہم پلّہ نہیں
بلکل جدید غزل کے نام پر بڑا پاگل پن چل رہا ہے معیار نام کی چیز آجکل کے چھچھورے شعراء کے اشعار میں کہیں سے کہیں تک نظر نہیں آتا ادب کی بڑی بے ادبی ہو رہی ہے اللّٰہ رحم کرے بس
بہترین شاعری
بڑا شاعر
بانجھ وصال رب دے باھو سب کہانیاں قصے ہو
آج دی رات میں کلا واں
کوی نہیں میرے کول
آج دی رات تے میرے ربا
نیڑے ہو کے بول
خاک میٹھی میں لیے سوچتا ہوں
انسان جو مرتے ہیں
تکبر کہاں کھو جاتا ہے
چنگے طور طریقے چھڈ کے زہری ہوندے جاندے نیں
پنڈا والے ہولی ہولی شہری ہوندے جاندے نیں
یہ راز مجھ پہ فقط موت کھول سکتی ہے
حیات اصل میں ہے ماہ و سال سے آگے
اسی اصول پہ قایم ہے کاینات تمام
ہر اک کمال کھڑا ہے زوال سے آگے
بیدار کر شعور میں زوق جمالیات
تو بھی کوی یوسف ثانی تلاش کر
کیا ضروری ہے مصلے پہ فقت زاہد ہو
رونے والا کوی مے خوار بھی ہو سکتا ہے
کبھی کبھی تو میرا گمشدہ وجود ظفر
میرے بندھے ہوے اسباب سے نکلتا ہے
راہ دے وچ کھلونا اوکھا
اپنا آپ لکو نا اوکھا
اینی ودھ گی دنیا داری
کلیاں پہ کہ رونا اوکھا
داغ محبت والا باہو
لگ جاوے تے دھونا اوکھا
موت کتنی بھی سنگدل ہو قتیل
زندگی سے تو مہربان ہو گی
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں بھی تو ندامت نہیں ہوتی مجھکو
آتے ہوے ازان ہوی جاتے ہوے نماز
بس اتنے قلیل وقت میں اء کر چلے گے
نہ گلشناں وچ گلاب مہکن
نہ دشت اندر سراب دہکن
نہ شام ویلے شراب لبھے
نہ کوی نویں کتاب لبھے
نہ کوی جملا حبیب والوں
نہ کوی حملہ رقیب والوں